Tuesday, March 17, 2015

مدارس دینیہ ہمارا وقار


پشاور اسکول حملہ کھلی دہشت گردی اور ظالمانہ کاروائی تھی جو کہ ہمارے دشمنوں نے ہم پر مسلط کی جس کی پاکستان کے ہر مکتبہ فکر خواہ وہ کسی بھی جماعت و مذہب سے ہو واضح الفاط میں مذمت کی ۔ اگر مذہبی جماعتوں کے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے خلاصہ کیا جائے تو کچھ اس طرح سے بنتا ہے ’’دہشت گردی کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی جماعت خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہو کسی بے گناہ کے قتل کی ہرگز اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی کوئی مدرسہ دہشت گردی کی تربیت اور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ہم سب پاکستان میں سے دہشت گردانہ کاروائیوں کو ختم کرنے میں حکومتی اور دفاعی اداروں کے ساتھ ہیں ‘‘۔

اسلام ایک دین امن بلکہ امن پسندو ں کا علمبردار ہے ۔ہندوستان میں انگریز کی آمد سے قبل مدارس کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوتی ہے کہ مدارس کا کردار تعلیمی و تربیتی بنیادوں پر چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہے ۔ سنہ1643ء میں یورپ میں ایک کتاب شائع ہوئی جوکہ سر تھامس رو کاسفر نامہ تھا جس میں وہ بتاتا ہے کہ پورے ہندوستان میں ان تعلیمی اداروں کا کیسا جال بچھا ہوا تھا صرف ٹھٹھہ جیسے دورافتادہ علاقے میں 400کے قریب کالج قائم تھے اوریہ بھی یاد رکھیں کہ اس وقت پڑھنے لکھنے کی شرح بھی تقریباََ 90فیصدکے قریب قریب تھی ۔ سوال اب یہ ہے کہ پاکستان میں مدارس دہشت گردی کی تربیت گاہیں ہیں ؟تو اس کا سیدھا وسادہ جواب ہے کہ بالکل بھی نہیں ۔ 
اسلام کا مطلب ہی سلامتی ہے ۔ پوری دنیا میں یہ واحد مذہب ہے جو غیر مسلموں کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے بلکہ عملی نمونہ کے طور پر محمد کریم ﷺ جیسی شخصیت کو بھی پیش کرتا ہے ۔ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے مختلف مکاتب فکر میں جا کر ان کے نصاب اور تربیت کو دیکھ چکا ہوں۔ میں نے ان میں کسی بھی وفاق کے نصاب میں سوائے قرآن وحدیث اور دیگر علوم کے کوئی بات ایسی نہیں دیکھی کہ جسے ہم دہشت گردی کہہ سکیں اور نہ ہی مدارس میں دہشت گردی پر ابھارا جا رہا ہے اگر کوئی ایسا ہے بھی تو حکومت کو اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے چاہئے نہ کہ سبھی مدارس کے خلاف قانون بنا کر ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئیے ۔ مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء ہمارا وہ سرمایہ ہیں جو کہ ہمارے قلوب واذہان میں قال اللہ وقال الرسول ﷺ جیسی صدائیں پہنچاتے ہیں ورنہ ہم لوگ تو کب کے اسلام کو بھول چکے ہوتے ۔ہمارے ہسپتالوں میں ،ہمارے اسکولوں میں اور ہمارے سرکاری اداروں میں ہڑتال ہونا معمول کی بات ہے لیکن مدرسہ کہ جسے ہم دہشت گردی کے ساتھ غیر ملکی دشمن عناصر کے کہنے پر نتھی کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہاں نہ تو کوئی یونین سازی ہوتی ہے اور نہ ہی ہڑتال جیسی چیزیں ۔یہ طبقہ جب بھی نکلا حرمت قرآن وحرمت رسول ﷺ جیسی چیزوں کی حفاظت کے لئے نکلا ۔ 
جہاں تک بات ہے اختلافات کی تو کیا سیاسی جماعتوں میں اختلاف نہیں ہیں کہ جو اس مملکت خداداد کی بھاگ دوڑ سنبھالے بیٹھیں ہیں ۔ مذہبی جماعتیں اکثر مواقع پر یکجا ہو جاتی ہیں جیسے کہ یہ دہشت گردی کا معاملہ لیکن سیاسی جماعتیں انہیں دہشتگردانہ کاروائیوں میں ہونے والے شہیدوں کی لاشوں پر اپنی اپنی ڈگڈگی بجاتی اور اپنی سیاست چمکاتی نظر آتی ہیں ۔ آپ کتابوں کی مارکیٹ میں جا کر اس دہشت گردی کے متعلق کے جو اسلام کے نام پر ہورہی ہے کتابیں ڈھونڈیں تو جتنی بھی کتابیں ملیں گی انہیں مدارس سے فارغ التحصیل علماء کی ملیں گی کہ جن میں انہوں نے صاف صاف لکھا ہے کہ پاکستان میں دھماکے اور لڑائی جہاد نہیں فساد فی الارض ہے اور کسی بھی بیگناہ کا قتل اسلام میں جائز نہیں ۔ ان سیاست دان نما بٹیروں نے کیا کیا؟ صرف نفرت اور دھوکہ دہی اور جب پانی سر سے گذر جائے تب افواج پاکستان کو بلالیا جاتا ہے کہ بچاؤ ۔۔۔۔! 
مدارس سے ڈرہم مسلمانوں کو نہیں بلکہ ان اسلام وپاکستان دشمن قوتوں( جن میں سرفہرست انڈیا ،امریکہ اور اسرائیل ہیں) کواور سیکولرازم والی ذہنیت کے لوگوں کو ہے اور یہ ڈر ان شاء اللہ ان کو رہے گاکیونکہ نہ تو مدارس سے قرآن وحدیث کی تعلیم دینی بند کی جائے گی اور نہ ان کے نصاب میں شیکسپئر اور برناڈشا اور دوسرے غیرمسلموں کے ناول کہ جو بے حیائی اور بے غیرتی پر مشتمل ہیں شامل کئے جائیں گے ۔ مدارس میں دعوت واصلاح اور دوسرے ارکان اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے اور دنیا میں امن وسکون اور عالم اسلام کی حفاظت کی دعائیں کی جاتی ہیں ۔ ہمارا دشمن یا درکھے! یہ مدارس دینیہ ان اسلام وپاکستان دشمنوں کی پاکستان کو سیکولرریاست بنانے کی خواہش کو خواب ہی رہنے دیں گے ۔ اگر آپ میں سے کوئی بھائی یا بہن انڈیا کے نیوز چینل دیکھتا ہو تو اس کو پتہ چلے کہ انڈیا پاکستان کے ان جوانوں سے کتنا ڈرتا ہے کہ جوخالصتاََ اسلام اور پاکستان کی بات کرتے ہیں ان کا میڈیا دن رات ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے جس کی مثال پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ۔ایس۔آئی اورمحترم جناب حافظ محمد سعید صاحب اور ان کی جماعت جماعۃالدعوہ ہے ۔کون سی چیز ہے جو ان سے بھارت کو ڈراتی ہے وہ چیز ہم مسلمانوں کا اللہ پر ایمان اور نبی کریم ﷺ کی رسالت پر اقرار ہے ۔ میں نہایت دکھ سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ آج جہاد جیسے اسلام کے رکن کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے اور ہر داڑھی والا ہم کو دہشت گرد نظر آتا ہے ہمارے دشمن نے جو ثقافتی جنگ ہم پر مسلط کی تھی وہ ہم نے خود ہی اس کو جتوا دی ہے کیونکہ ہمیں اسلام کی تعلیمات کا ہی نہیں پتہ کہ جہاد کس کو کہتے ہیں اور یہ کب اور کس کے خلاف ہو سکتا ہے؟
دینی مدارس کو دہشت گردی سے جوڑنا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ہے کیونکہ دینی مدارس اسلام کے نمائندے ہیں کیونکہ انہی سے قال اللہ اور قال الرسول ﷺ کی آوازیں دن رات بلند ہو کر ہمارے ملک پاکستان کی فضاؤ ں کو معطر کرتی ہیں ۔دینی مدارس میں اصطلاحات اور دوسرے دیگر سبھی مسائل حل ہونے چاہئیے لیکن ان کو دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دینا بالکل غلط اور صریح ناانصافی ہے ہمیں اس کا تدارک کرنا ہوگا اور ان مدارس کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے ان کو اس ایشو پر اپنے ساتھ چلا کر ملک میں امن قائم کرنا ہوگا ۔
پچھلے دنوں امریکی صد باراک اوربا ما نے کیرولینا میں ہونے والی دہشت گردانہ کاراوئی کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔ حالانکہ اس وقت یہ بیان ہونا چاہئیے تھا کہ عیسائی دہشت گردنے 3امن پسند مسلمان طالب علم شہید کردیئے جن میں دو سگی بہنیں تھیں اور ہم ان کے قتل کا بدلہ ان عیسائی دہشت گردوں سے لے کر رہیں گے اور اس کے ساتھیوں کو ڈھونڈکر کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ لیکن چونکہ مرنے والے مسلمان تھے اس لئے اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں کہہ کر مسلمانوں کی ہمدردیا ں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔
خدارا!ہمارے حکمران ، قانون دان اور ہمارے میڈیا کے نمائندگان ان چیزوں کوسمجھیں کہ غیر مسلم کا اسلام کے متعلق دوہرا معیار ہے وہ ہم سب کو آپس میں لڑا کر دنیا میں اسلام اور مسلمان کا نام ونشاں ختم کرنا چاہتا ہے ۔کوئی بھی ایسی چیز جس کا تعلق اسلام کے ساتھ ہو اس پر بات کرنے سے پہلے لازمی سوچیں کہ کہیں ہم دشمن قوتوں کے ہاتھ تو مضبوط نہیں کر رہے ۔ آج یہ وقت آچکا ہے کہ آپ داڑھی اور برقعہ کے بغیر جتنے چاہے قتل کریں آپ صرف قاتل ہیں لیکن اگر آپ داڑھی رکھ کر کسی کو تھپڑبھی مارتے ہیں تو آپ دہشت گردوں کی لسٹ میں ہیں میری مراد صولت مرزا جیسے لوگ کہ جس نے 58لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا ہے لیکن اسے پھانسی نہیں دی گئی۔ یہ دوہرا میعار بھی ختم کرنا ہوگا قتل کا بدلہ قتل چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہے خواہ وہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اس کو کیفرکردارتک پہنچائیں لیکن مدارس کے خلاف اس طرح کا پروپیگنڈہ اور ان کو تنگ کرنا بند کیا جائے ۔
مجھے یہ سبق بھی مدارس دینیہ سے ہی ملا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ جس شخص نے ہم (مسلمانوں) پر اسلحہ اٹھایا ،پس وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘ (بخاری ،کتاب الفتن،7071۔ مسلم ،کتاب الایمان ،98) اس کو پڑھنے کے بعد خودسوچیں کہ جو مدارس اس طرح کے اسباق پڑھاتے ہوں وہ دہشت گرد ہیں ؟ اصطلاحات اور دیگر مسائل حل کریں لیکن دشمن قوتوں کے ہاتھ محفوظ نہ کریں ۔ ہمارا وقار ،ہماری پہچان ہمارے مذہب اسلام اور دینی مدارس سے ہے ۔ ان کو اپنے ساتھ ملائیں ناکہ ان کے خلاف اقدامات کرکے ان کی حمایت سے محروم ہوکر پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں اپنا اسلامی ملک کھلونا بنا دیں ۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: مدارس دینیہ ہمارا وقار Rating: 5 Reviewed By: Unknown