Tuesday, September 27, 2016

تحریک انتقاضہ ثالثہ

انتقاضہ ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے اندر ایک پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے ۔یہ ایک جہدمسلسل اور اپنے دشمن کے خلاف ایک ایسی تحریک کانام ہے جوجدید ترین اسلحے سے لیس،جدیدترین ٹیکنالوجی سے بہرہ مندممالک کی حمایت یافتہ بدنام زمانہ قوم کے خلاف فلسطینیوں نے غلیلوں اور پتھروں سے شروع کی تھی۔انتقاضہ کاعربی مطلب ہے’’ہلچل‘‘،اٹھ کھڑے ہونا،سکوت اور عدم حرکت کو خیرباد کہہ دینااور شدت کے ساتھ برسرعمل ہونے کی دہائی پڑجانا۔ یہ ایک ایسی قوم کے خلاف جدوجہد کانام ہے جس کی پوری تاریخ عیاری ومکاری،دھوکہ دہی،جھوٹ وفریب،ظلم وبربریت ،قتل وغارت اور پوری دنیا پرحکومت کرنے کے خوابوں سے بھری پڑی ہے ۔80ء کی دہائی کے وسط کے بعد بیت المقدس کی جدوجہد آزادی نے ایک نئی کروٹ لی۔فلسطین کی گلی گلی میں چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں پتھر لئے اسرائیلی فوجیوں کے سامنے سینہ سپر کئے کھڑے ہوگئے تھے ۔دیکھنے والوں کا خیال تھا کہ غزہ کی پٹی میں واقع خیمہ بستی ’’جالیا‘‘میں ایک اسرائیلی ٹرک کی بربریت کا شکار 4فلسطینی مزدوروں کے متعلق فلسطینیوں کاشدید مگر وقتی ساردعمل ہے ۔جو آس پاس کے کچھ شہروں میں بھڑک اٹھا ہے مگر فلسطینیوں نے برسوں اسی سرفروشی پر قائم رہ کر دنیا کو باور کروا دیا کہ آج بھی مسلم امہ کی رگوں میں اسلام سے محبت زندہ ہے ۔ یہ اصل میں فلسطین کی اسلامی بیداری تھی جوایک نئے پختہ تر مرحلے میں داخل ہورہی تھی ۔اسی اسلامی مزاحمتی تحریک کو انتقاضہ اولیٰ کا نام دیاگیا۔انتقاضہ اولیٰ کوئی عشرہ بھر چلی لیکن یہ اپنی تاثیر میں اس قدر شدید تھی کہ قہر وتشدداور عیاری ومکاری کی ناکامی کے بعد اسرائیل اور اس کے حواریوں نے اس کے دوررس نتائج کو دیکھ لیا تھا۔چنانچہ چند ہی سالوں میں میڈریڈکا معاہد ہ امن (1991ء)، امریکہ کی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں اوسلو مذاکرات،1993ء میں یاسر عرفات کااسحاق رابن سے تاریخی مصافحہ اور غزہ کی ایک بلدیہ نما ’’فلسطینی اتھارٹی‘‘کاپرمٹ اسی انتقاضہ اولیٰ کی مرہون منت ہیں ۔انتقاضہ اولیٰ کے دوران 1500کے قریب فلسطینی شہید جبکہ 1,50,000کے قریب فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا ۔200سے زائد اسرائیلیجہنم رسید ہوئے تھے۔19اپریل1988ء کو ابوجہاد نامی فلسطینی رہنما کو تیونس میں اسرائیل نے شہید کروادیاتھا۔یوں اسرائیل لادین وسیکولر قیادت کورجھانے اوراپنی ڈگرپر لانے میں ناکام ہوچکاتھا اور فلسطینی معاملہ صحیح معنوں میں اسلام پسند کے ہاتھ میں آچکاتھا۔
سنہ2000ء میں انتقاضہ ثانی شروع ہوتاہے ۔جس کی بنیادی وجہ اس وقت کی اسرائیلی اپوزیشن پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ایریل شیرون نے اسرائیل کاہیروبننے اور وزیراعظم بننے کے لئے یہ شر انگیزاعلان کیاکہ وہ احاطہ مسجداقصیٰ میں گھس کر ہیکل کا سنگ بنیادرکھے گا۔ایریل شیرون فورسز کی بھاری تعداد کی حفاظت میں مسجد کے اندرداخل ہونے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن اس پر واضح ہوچکاتھا کہ مطلوبہ جگہ پہنچنے کے لئے اسے فلسطینیوں کی لاشوں گذرناہوگا۔فلسطینیوں نے یہ ثابت کردیاکہ جب تک ایک بھی فلسطینی کی رگوں سانس کی رمق باقی ہے وہ مسجد اقصیٰ کادفاع کریں گے۔گویاکہ مسجد اقصیٰ کے محافظ نمازی اس دن موت کے لئے گھروں سے تیار ہوکرنکلے تھے۔مسجد کے اندر اورباہر متعدد سڑکیں ،بازاراور گلیاں خون مسلم سے رنگین ہوگئیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں نے بہادری کے کارہائے سرانجام دئیے۔خون اتنا بہیہ چکاتھا کہ ایریل ہیروبن چکاتھا اور الیکشن جیتنے کے لئے ایک مضبوط امیدوار بن چکاتھالہذا اسے ہیکل کی بنیاد کی کوئی ضرورت نہ رہی ۔لیکن یہ وقعہ فلسطینیوں کو انتقاضہ ثانیہ کی بنیاد فراہم کرگیااور اس کی آگ بیت المقدس سے بڑھتی ہوئی فلسطین کے دوسرے شہروں تک جاپہنچیاور بالآخر ایک ایسے لاوا کی شکل اختیار کرگئی جسے قابو کرنا کسی بھی ڈپلومیسی کے بس کی بات نہ رہی۔اس دن کے آخر تک 7فلسطینی شہید جبکہ 300سے زائد زخمی ہوئے ۔جھڑپوں میں 70سے زائد اسرائیلی زخمی ہوئے ۔اسی انتقاضہ کو ’’اقصیٰ انتقاضہ‘‘بھی کہاجاتاہے۔
غلیلوں اور پتھروں سے گولی اور راکٹ اور پھر ان سے بھی بھاری ہتھیاروں تک کایہ سفر فلسطینی مسلمانوں نے نہایت جرات مندی واخلاص کے ساتھ کیا ہے ۔ایک نہایت ہلکی آنچ پر یہودی قبضہ کاروں اور آبادیاتی منصوبہ سازوں کوسینک پہچانے کاکام بہت سوچ سمجھ کر فلسطینیوں نے شروع کیا تھا ۔زیادہ تر کاروائیاں فوجی اہداف پر کیں اور اگر اکادکا کاروائی اس سے ہٹ کر بھی ہوئی تو اس کو طرفین نخوبی جانتے ہیں کہ اصل مقاصد کیا ہیں۔حماس،الجہاد الاسلامی،کتائب الاقصیٰ وغیرہ ایسی جہادی تنظیموں کا نام لوگوں نے پہلے سن رکھا تھا لیکن انتقاضہ اقصیٰ میں ان کی طاقت کااحساس ہوا ۔انتقاضہ اولیٰ میں اگر امن معاہدوں بند باندھنے کی کوشش ہوئی تھی توثانیہ نے وہ سب بند توڑ دئییتھے۔اس بے قابو مگر منظم الاؤ سے بچنے کی اسرائیلیوں نے بہت کوشش کی ۔جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ فلسطینی شاید امت مسلم میں وہ واحد لوگ ہیں جن کی شرح خواندگی قریب قریب 100%ہے اور پون صدی سے زائد عرصے کی جدوجہد وتکالیف کی بھٹی نے انہیں کندن بنادیاہے ۔میراخیال ہے کہ اگرایک آزادریاست ان کے ہاتھ لگتی ہے تو اس کاحال بنگلہ دیش جیسا نہیں ہوگابلکہ یہ ایک بیس کیمپ کی بنیاد ہوگا جو بقیہ فلسطین لینے کی سرتوڑ کوشش کرے گا۔اس لئے فلسطینی اسرائیل سمیت اس کے سبھی حواریوں کے لئے ایک بھیانک صورت اختیارکرچکے ہیں ۔یہودی آبادکاروں کی راتوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں اور وہ دانش مند جو ماضی میں دنیا کو یہودی پروٹوکول سے ڈارتے تھے اب اسرائیل کی سلامتی کے متعلق فکر مند نظر آرہے ہیں ۔بلاشبہ یہودی پروٹوکول فلسطینی مجاہدین کے پیروں تلے کچلا جاچکاہے ۔
اس وقت فلسطین کے افق پر تیسری انتقاضہ کی تحریک دستک دے رہی ہیاور حیرت کی بات ہے کہ اس سے خوگ زدہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر جناب محمود عباس ہورہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق صدر محمود عباس نے اتوار کے روزاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ کو فلسطینیوں کو تحفظ دلاناچاہیئے ۔اس سے پہلے کہ حالات بے قابوہوجائیں عالمی ادارہ مداخلت کرے اور اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھے۔فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی’’الوفاء‘‘نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صدر محمود عباس جلد ہی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بھی ٹیلیفون پر بات چیت کریں گے اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل پران سے تعزیت کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاروں کے حملے روکنے کا مطالبہ کریں گے۔میری تو سمجھ سے باہر ہے کہ محمود عباس کس قوم کی نمائندگی کررہے ہیں جو غاصبوں سے تعزیت کررہے ہیں ۔ان سے جو ہرروز کسی نہ کسی فلسطینی کو یتیمی کا داغ دے دیتے ہیں ،کسی فلسطینی عورت کا سہاگ اجاڑ دیتے ہیں اور کسی کی گود بانجھ کردیتے ہیں۔خیال رہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے بیت المقدس اور غرب اردن میں فلسطینی شہریوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ یہودی آباد کاروں نے فلسطینی شہریوں کی جان ومال پرحملے شروع کر رکھے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینیوں کی جانب سے جوابی مزاحمتی کارروائیوں میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ حالیہ ایام میں غرب اردن اور بیت المقدس میں مزاحمتی کارروائیوں میں کم سے کم چار یہودی آباد کار ہلاک اور چار زخمی ہوچکے ہیں۔قبل ازیں فلسطینی صدر محمود عباس کے مشیر نمرحماد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت ملک میں اسرائیل کے خلاف تیسری تحریک انتفاضہ کو ہرصورت میں روکنا چاہتی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ غرب اردن میں موجودہ بد امنی کے پیچھے اسلامی تحریک مزاحمت "حماس" کا ہاتھ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا اتنا بڑا یوٹرن یقیناًفلسطینی مزاحمت کاروں اور عوام کی نظروں میں ان کوگراد ے گا ۔ماضی میں بھی یہودیوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کے مابین خانہ جنگی کروادی جائے اور اس طرح سے اسرائیل کی ان سے جان چھوٹ جائے گی ۔لیکن ماضی میں اس طرح کی سازشوں سے فلسطینی بڑی اچھی طرح سے نمٹ چکے ہیں۔بلاشبہ اس کا سہرا صاحب بصیرت شخصیت شیخ احمد یاسین ؒ ؒ شہید کوجاتا ہے جنہوں نے وہیل چیئر پر ہوتے ہوئے قوم کو جہاد پر کھڑا کیااور انہیں کوئی بھی ایسی غلطی نہ کرنے دی جس پر یہودی خوشی سے بغلیں بجائیں ۔اس لئے موجودہ فلسطینی اتھارٹی کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یادرکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ معاملات کرنے چاہیئے ناکہ اسرائیل سے معذرت کرتے پھریں ۔یہ وقت آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا وقت ہے اس وقت فلسطینی مجاہدین نے جس طرح سے اسرائیل کو زچ کرکے رکھا ہے سیاسی قیادت کوبھی چاہیئے کہ مزاحمت کاروں کا ساتھ دیکر اسرائیل پر مزید دباؤ بڑھائیں ۔

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: تحریک انتقاضہ ثالثہ Rating: 5 Reviewed By: Unknown