Tuesday, September 27, 2016

روس کی دوبارہ سے ابھرنے کی کوششیں


سوویت یونین کی فوجیں گرم پانیوں کی تلاش میں افغانستان میں برسوں سر پھٹکنے کے بعد اپنا انگ انگ تڑوا کر دریائے آمو کے پار اس وصیت کے ساتھ واپس چلی گئیں کہ آئندہ کوئی گرم پانیوں پر قابض ہونے کی خواہش لے کر افغانستان کارخ نہ کرے ۔گرم پانیوں کے باسی بہت سخت جان اور اصولوں کی حفاظت کرنے والے لوگ ہیں ۔ابھی کل کی بات ہے امریکہ نے بھی انہیں گرم پانیوں پر قبضے کی خاطر مختلف بہانے تراش کر حملہ کیا اور قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سخت جان باسیوں نے امریکہ کو وہ تگنی کا ناچ نچایا کہ امریکہ کو اپنی معیشت کے لالے پڑ گئے ۔سوویت یونین سے روس بننے کے بعد ایک لمبے عرصے تک روس خاموشی سے اپنے آپ کو کھڑا کرتا رہا۔ اس دورانیے میں امریکہ کا طوطی اور ورلڈ آرڈر بولتا رہا۔روس نے حتی الامکان کوشش کی کہ وہ کسی بھی تناظر میں کسی پنگے میں نہ آئے ۔اس سارے وقت میں روس کے دل سے گرم پانیوں کی خواہش نہ نکل سکی ۔پاکستان کا جھکاؤ روس کی نسبت امریکہ کی جانب زیادہ رہا لیکن ہندو بنیا ء نے اپنی روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے دونوں طرف ہی تعلقات کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ روس سے دفاعی ومعاشی معاہدات ہوتے رہے ۔
بھارت اور روس سرد جنگ کے دورمیں قریبی اتحادی تھے لیکن کچھ برسوں میں یہ تعلقات ذرا مخدوش ہوگئے تھے ۔حالیہ مودی کے دورہ ماسکو میں دونوں ممالک میں پھرسے قریب آگئے ہیں ۔دونوں ممالک کے دفاعی اورسٹریٹجک تعلقات کافی اہم ہوتے جارہے ہیں۔بھارت کی افواج کی سپلائی کا سات فی صد روس سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس وقت بھارت کے پاس جتنے بھی تباہ کرنے والے ہتھیا ر ہیں وہ سب روس سے خریدکردہ ہیں۔روس
کے لئے بھی بھارت ایک اہم ملک ہے کیونکہ بھارت روس کے اسلحہ کا بڑا خریدار ہے ۔مودی کے روس دورے میں کل 16معاہدات ہوئے جن کے تحت روسی ہیلی کاپٹرکاموف 226بھارت میں تیارکیا جائے گا۔روسی صدر نے کہا کہ براہموس میزائل بنانے میں بھارت کا تعاون کامیابی سے جاری ہے ۔روس بھارت میں 6نئے جوہری پلانٹ بنائے گا ۔بھارت اورروس کے درمیان عشروں پرانے دفاعی ،اقتصادی ،سماجی اورثقافتی تعلقات ہیں،لیکن دفاعی معاہدوں پرعمل درآمد میں تاخیراوروقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے اب دونوں کے تعلقات میں سرد مہری ہے ۔عالمی تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے خریدے گئے ہتھیاروں میں بھارت کا پہلا نمبر ہے جبکہ چین دوسرے نمبر اور پاکستان تیسرے نمبر پر ہے ۔
پاکستان نے اس سارے مسئلے کو اس طرح سے حل کیا ہے کہ پوری دنیا کو پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہونا پڑے گا ۔چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC)کے تناظر میں جہاں چین کو سب سے بہترین راہداری میسر آرہی ہے وہیں روس کی نظریں بھی اس پر گڑی ہوئی ہیں ۔کیونکہ ایک تو گرم پانی اور دوسرا مختصر ترین راستہ ہے جس کی مثال’ روس نے مغرب میں یورپی ملک لٹویا سے لے کر چین کی سرحد تک جدید ریل اور روڈنیٹ ورک کا نظام مکمل کیا ہوا ہے ‘یعنی روس مکمل تیاری میں ہے۔روس کے پاکستان کے ساتھ تعلقا ت بہتر ہورہے ہیں جس کی مثال روس کی ایم آئی ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کا فیصلہ ہے ۔جسے بھارت میں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا تھا۔یہ مفادات کی جنگ ہے جس طرف مفادات ہوں گے اس طرف ہی ملکوں کا جھکاؤ ہوتا ہے ۔دوسری طرف روس کھل کر اپنے مفادات اور اپنے دوست بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ہوکر دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہاہے کہ امریکہ کا ورلڈآرڈر اب نہیں چلے گا ۔
شام میں بشار الاسد کی حمایت میں روس کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔بشارالاسدکو اس وقت ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے جس سے وہ مضایا جیسے سیاحتی مقام کو بھی پچھلے 6ماہ سے محاصرے میں لئے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں مضایا میں لوگ گھاس تک کھانے پرمجبور ہوچکے ہیں ۔دوسری طرف ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ روسی فضائی بمباری سے شہری آبادی کا نقصان بھی اورشہادتیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق روسی فضائی بمباری سے کم سے کم اب تک 200شہری ہلاک ہوچکے ہیں ۔پانچ سال قبل جب مشرق وسطیٰ میں انقلاب کی لہرآئی تو یہ تیونس،مصر اور لیبیاسے ہوتی ہوئی شام پہنچی جہاں پرامن مظاہروں نے ایسی خانہ جنگی کی شکل اختیار کی کہ لاکھوں مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں ہی دربدرہوچکے ہیں ۔اس وقت شام میں جہاں حکومت مخالفین گروہ ہیں تو وہیں داعش بھی اپنے پنجے گاڑ چکی ہے ۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا کی نظریں شام پر لگی ہیں ۔روس کا کہنا ہے کہ وہ بشارالاسد کی ایما پر فضائی بمباری کررہاہے ۔ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق روسی بمباری سے عام شہریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن روس کے مطابق وہ صرف داعش کونشانہ بنا رہاہے ۔بشار الاسد کے حمایتیوں کے لئے داعش صرف ایک بہانہ ہے وہ اسی بہانے کی بنیاد پر نہتے شامیوں پر ظلم وستم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔روس کو اس وقت اپنی سرمایہ کاری کی فکر ہے جو وہ شام میں کرچکا ہے ۔وہ جانتا ہے کہ بشار الاسد کی جگہ کوئی بھی بندہ آئے گا یاکسی اور کی حکومت بنے گی اوریاپھر جمہوری نظام آئے گا تو اکثریت سنیوں کی ہونے کی بناء پر اس کی دال نہیں گھل پائے گی ۔ویسے بھی روسی صدر کہہ چکے ہیں کہ بمباری کا مقصد بشارالاسد کی حکومت کومستحکم کرناہے ۔
اصل میں روس کی شام میں مداخلت کی ایک بڑی وجہ انکل سام سے پرانی مخاصمت ہے جواسے افغانستان میں ملی تھی ۔اس وقت روس صرف شام میں برسرپیکار نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ترکی اوردیگر ایسی ریاستوں کے خلاف مکمل پلاننگ کے ساتھ میدان میں اتر چکا ہے جو اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے یاپھر اس کے خطرے کی گھنٹی بجاسکتے ہیں ۔ترکی میں ہونے والے دھماکوں کے متعلق قارئین ذرا خبریں پڑنے سے پہلے روس اورترکی کی سرد جنگ جو روسی طیارہ تباہ کرنے سے شروع ہوئی تھی ،ذہن میں رکھیں ۔روس اپنا اقتدار لینے کی بہرصورت کوشش میں ہے اور ایسے میں پاکستان کا کردار اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جوروس کو لگام ڈال سکتا ہے کیونکہ گرم پانیوں تک رسائی کے بغیر روس کبھی بھی سپر پاور نہیں بن سکتا ،گرم پانیوں کی یہ جنگ بہت پہلے کی ہے ۔قیام پاکستان سے بہت پہلے کی یہ جنگ آج عروج پر پہنچ چکی ہے ۔مستقبل قریب میں بہت سارے ایسے بلاک بنیں گے جو پاکستان کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں گے ۔ایسے میں پاکستان کو بھی اپنی بہرصورت پلاننگ ابھی سے تیاررکھنی ہوگی۔پاکستان ،ترکی اور سعودی عرب جیسے اسلامی ملکوں کو یہ سمجھ کرچلنا ہوگا کہ ان کی اپنی صفوں میں بہت سے آستین کے سانپ چھپے بیٹھے ہیں جو کسی بھی صورت میں اسلامی ملکوں کااتحاد کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔امریکہ کا ورلڈآرڈر اب بہت حد تک ختم ہوچکا ہے اور دوسری طاقتیں اپنا اپنا آرڈر مسلط کرنے کے چکروں میں ہے ۔ایسے میں اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کو خوش آئند سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو اسے کامیاب کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور باہمی اختلاف بھلا کر امت واحد ہونے کا ثبوت دیں تاکہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہوسکے اور مسلم دنیا پر مسلط کردہ دہشت گردی کی یلغار ختم ہو سکے ۔

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: روس کی دوبارہ سے ابھرنے کی کوششیں Rating: 5 Reviewed By: Unknown