Tuesday, September 27, 2016

نظریاتی اختلاف اور خود کش دھماکے


جیسے جیسے ٹیکنالوجی عروج پر پہنچ رہی ہے بالکل اسی نسبت سے دہشت گردی میں جدید ٹیکنالوجی کااستعمال بھی بڑھ رہاہے ۔دنیا نے جب ایٹم بم کی تباہی دیکھی تو خیال کیا کہ یہ تباہی کا انت ہے لیکن جب خود کش دھماکوں میں انسانوں کو پھٹتے دیکھا تو سمجھ آئی کہ تباہی کا تو ابھی آغاز ہواچاہتا ہے ۔دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ خطرناک بم ’’خودکش بم ‘‘ یعنی چلتا پھرتا انسان نما بم ہے ۔یہ عام انسانوں میں عام انسانوں کی طرح نظر آتاہے لیکن اس کی لائی ہوئی تباہی جنگ عظیم اور ایٹمی تباہی کی یاد دلادیتی ہے ۔پاکستان عرصہ دراز سے اس ڈریکولا نما عفریت سے نپٹ رہاہے ۔ڈریکولا ایک انسان کا خون پیتا تھا لیکن یہ خود کش بمبار ایک وقت میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کا خون پی جاتا ہے اور ساتھ میں اپنے آپ کو بھی اڑا لیتا ہے ۔انسان دھماکوں ،ایٹم بموں اور تخریب کاری کے دیگر عناصر سے بخوبی نمٹ سکتا ہے لیکن ایک ایسے جاندار سے نپٹنا ذرا مشکل ہے جو اپنی جان دینے کے ساتھ ساتھ معصوم اور نہتے انسانوں کی جان لینے کا تہیہ کرچکا ہو ۔
دنیا عام طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں حسن بن صباء نامی جنونی انسان کو خود کش حملوں کا خالق مانتی ہے تاہم ان خودکش حملوں کی ابتدا ء یہودی سیاسی تحریک ’’زیالوت ‘‘سے ہوئی ۔ جس کے کارکنان خنجروں سے رومیوں کو مارتے اور اس سے وہ خود بھی مرجاتے ۔زیالوت نے پہلی صدی عیسوی میں سلطنت روم کے فلسطینی علاقے میں جنم لیا ۔جوسیفس گروہ اپنے انتہاپسند اورپرتشدد نظریات کی وجہ سے دیگر یہودی گروہوں میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا ۔یہودیوں کے مذہبی لٹریچر ’’تالمود‘‘ میں ان کو وحشی کہہ کرمخاطب کیا گیا ہے۔66عیسویں میں یروشلم کو رومیوں سے آزاد کروانے میں زیالوت کا سب سے اہم کردار رہاہے ۔یروشلم کو آزاد کروانے میں زیالوتی گروہ کے ساتھ ایک اوریہودی گروہ ’’سیکاری‘‘بھی تھا ۔یروشلم پر قبضے کے بعد وہاں زیالوت اور سیکاریوں کی طرف سے خوب لوٹ مار کی گئی اور رومی ویونانی لوگوں کا قتل عام کیا گیا ۔چند سال بعد ٹیٹس شہنشاہ روم نے یہودیوں کو شکست سے دوچارکرتے ہوئے یروشلم کو تباہ کرکے رکھ دیا ۔زیالوت کے کچھ ممبران فرار ہوگئے جنہوں نے بعد میں خود کش حملہ کی ابتدا کی ۔انہوں نے رومیوں سے انتقام لینے کے جہاں دوسرے طریقے اختیار کئے وہیں انہوں نے خود کش حملوں کو بھی رواج دیا ۔اس گروہ کے ممبران چوکوں ،چوراہوں میں کھڑے رومی فوجیوں کے نزدیک سے گذرتے ہوئے اچانک خنجر نکال کر حملہ کردیتے اس طرح وہ حملہ کرکے کئی رومی سپاہیوں کو قتل کرکے خود بھی ان کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ۔حسن بن صبا گیارہویں صدی کا وہ انسان تھا جس نے انسانیت پر تجربات کرکے اسے حیوان بنا دیا ۔ بیٹے کے ہاتھوں ماں باپ کا قتل ،غلام کے ہاتھوں آقا کا قتل اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو قتل کرنے جیسے واقعات حسن بن صبا کی تاریخ میں بکثرت ملتے ہیں۔حشیش کے نشے میں دھت رہنے والے فدائین اپنے آپ کو جنت میں خیال کرتے اور اسی جنت کی چاہ میں فدائین حسن بن صبا کے سامنے کٹ کٹ کر گرتے ۔تاریخ میں ایک واقعہ محفوظ ہے جو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتاہوں کہ جب حسن بن صبا کا فتنہ بہت بڑھ چکا تو اس وقت کی مسلم سلجوقی حکومت کے سلطان ملک شاہ نے اس کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا ۔لشکر کشی سے پہلے حسن بن صبا کے پاس ایک قاصدکو پیغام دے کر بھیجا گیا کہ حسن بن صباح خود کو سلطنت کے حوالے کردے اور اپنی منفی سرگرمیاں ختم کردے ورنہ اس کے قلعہ پر چڑھائی کردی جائیگی۔ ایلچی نے یہ پیغام قلعہ الموت میں جا کر حسن بن صباح کو سنایا۔حسن بن صبا نے کہا کہ میں کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتا اور نظام الملک سے کہنا کہ میں بچپن کی دوستی کے تحت تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ یہاں کا رخ مت کرنا ورنہ تمہاری فوج کا انجام بہت برا ہوگا۔ایلچی یہ پیغام لے کر جانے لگا تو حسن بن صباح نے اسے روک لیا۔ ٹھہرو شاید تم میری باتوں کا یقین نہ کرو میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے کچھ فدائین قطار بنا کر وہاں کھڑے ہوگئے۔اس نے ایک فدائی کو بلا کر خنجرپکڑایا اور کہا اِسے اپنے سینے میں اتار لو۔اس فدائی نے بلند آواز میں نعرہ لگایا یا شیخ الجبل! تیرے نام پر اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا۔اس کے بعد ایک دوسرے فدائی کو بلا کر حکم دیا کہ بلندی پر جا کر سر کے بل چھلانگ لگا دو۔وہ خاموشی سے گیا اور چھت سے چھلانگ لگادی اور اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔ایسے ہی ایک فدائی کو پانی میں ڈوبنے کو کہا گیا اور اس نے بخوشی اپنے آپ کو پانی کی تند و تیز لہروں کے حوالے کردیا۔حسن بن صبا نے وقت کے بہترین اعلیٰ شخصیات اور جید علما کرام کو فدائین کے ہاتھوں قتل کروایا حتیٰ کہ صلاح الدین ایوبی ؒ پر بھی عیسائیوں کے کہنے پر تین دفعہ حملہ کیا لیکن ایوبی ؒ اللہ کے فضل وکرم سے محفوظ رہے ۔ بعد میں یہی فدائین (حشیشین ) کرائے کے قاتل بنے اورعالم اسلام کی مزید شخصیات کو نشانہ بنایا ۔
موجودہ خود کش حملے اگرچہ حسن بن صبا ء کے حواری تو نہیں کررہے لیکن اس کے پیچھے عوامل کارفرما وہی ہیں جن سے حسن بن صبا نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا تھا۔خود کش حملہ آوروں کو دوسرو ں کی جان لینے کے لئے ایک مخصوص طریقہ سے گذارا جاتا ہے جسے دماغ شوئی (Brain Washing) کہا جاتا ہے ۔شروع شروع میں اس اصطلاح کااستعمال فوجیوں کی ذہن سازی کے لئے کیا گیا جس کا مقصد فوجیوں کے ذہن سے دشمنی کے عناصر کو نکالنا تھا ۔عام حالات میں یہ اصطلاح کسی فرد کے ذہن میں کسی نظریے یاعقیدے کو نکالنے اور اسی واسطے سے فرد کے رویے اورارادے میں تبدیلی لانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔ یہاں اس اصطلاح کا مثبت استعمال تھا لیکن دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے کچے ذہنوں ،کم علم لوگوں اور مصیت کے ماروں کو اس طرح سے استعمال کیا کہ دماغ شوئی کا مثبت استعمال کہیں دب کررہ گیا ہے ۔برین واشنگ سے ملتی جلتی ایک اوراصطلاح ’’منچورین کنڈیڈیٹ ‘‘ہے ۔ اس پر 1959ء میں منچورین کنڈیڈیٹ (زومبی ایجنٹ )فلم بن چکی ہے ۔ جس میں جنگ کوریا سے واپس آنے والے ایک سپاہی کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ 1962ء میں بھی اسی نام پر ایک اورفلم فلمائی گئی جس میں ایک ایسے شخص کو دکھایا گیا جس کی برین واشنگ کی جاچکی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے احکامات پر عمل پیرا نظر آتاہے ۔اس طرح سے آج کل خود کش حملہ آور ایک نظریاتی جنگ کا سپاہی بن جاتا ہے ۔خود کش حملہ آور ایک ایسی جنت کی تلاش میں سرگرداں رہتاہے جو اسے دکھائی جاتی ہے اور جنت ملنے کی قیمت کسی مسلم معاشرے میں اپنے آپ کو بم دھماکے سے پھٹنا اس کے ذہن میں ڈال دیاجاتاہے ۔اس کا ایک مکمل دورانیہ ہوتاہے ۔ متعلقہ بندے کواسلام کے نام ظلم وجبر سے روشناس کروایا جاتا ہے۔اسلام جو سلامتی کا دین ہے ۔ اس بندے کے نزدیک ماسوائے دوسروں کو مارنے کے کچھ بھی نہیں رہتا ،جہاد کا مفہوم بدل کر اس کے سامنے رکھا جاتا ہے اور اس طرح سے کچا ونابالغ ذہن جہاد جہاد کی رٹ میں نہتے لوگوں کواپنا نشانہ بناتاہے ۔
اسلام بمعنیٰ امن وسلامتی ہے ۔اسلام ایک نظریاتی دین ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو خالق کُل مانتے ہوئے اس کی مخلوق سے محبت کرنے کا حکم ہے ۔ناگزیر حالات میں جنگ وجدل کا قانون موجود ہے لیکن اس قانون میں بھی واضح الفاظ میں نہتے وبے گناہ لوگوں کی حفاظت کا حکم دیاگیا ہے بلکہ تاریخ اسلام میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں ۔مسلم مجاہدین جب کسی شہر یاملک کو فتح کرتے تو وہاں امن وسکون لانے کی مکمل کوشش کرتے اور غیر مسلم مردوں ،عورتوں اور اقلیتیوں کی حفاظت کاذمہ اپنے سرلیتے۔ تو یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ اسلام کا نام لیوا ایک انسان نہتے لوگوں اور اپنی جان پر ظلم کرے ۔خود کش حملہ آور کاچاہے کوئی بھی مذہب ہو وہ نظریاتی طور پر اپنے کام کو صحیح سمجھ کر چل رہاہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات کوئی نظریاتی طور ناپختہ خود کش بمبار اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیتا ہے ۔جہاں ہم ضرب عضب آپریشن کی مدد سے ان دہشت گردوں ،خوارج اور تکفیریوں کو نکیل ڈال چکے ہیں وہیں ہمیں اس وقت شدید ترین ضرورت ایسے نوجوان طبقے کی ہے جو پڑھا لکھا ہو اور دین اسلام کے نظریہ جہاد سے بخوبی واقف ہو اور حکومت وقت کو ایسے باعمل اور نظریاتی علما کرام کو آگے لانا ہو گاجو عرصہ دراز سے خوارج کے خلاف کام کررہے ہیں ۔ تکفیریت کے نام پر پلنے والے ان خوارج کے خلاف دین دار طبقے کو حکومت کے ساتھ کھڑ اہوکر نظریاتی جنگ میں بھی ضرب عضب کامیاب کرنا ہوگی ۔بھارتی خفیہ ایجنسی اور افغان خفیہ ایجنسی کے ایجنٹس کا پکڑا جانا تائید ایزدی ہے ۔ ہمیں ان نظریات کو ختم کرنا ہوگا جو ہماری نسل نو کو خود کش لائن میں کھڑا کردیتی ہے ۔


  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: نظریاتی اختلاف اور خود کش دھماکے Rating: 5 Reviewed By: Unknown