Tuesday, September 27, 2016

بھارت میں ذات پات کانظام اوردوقومی نظریہ


سیکولر بھارت کی ریاست اترکھنڈ میں ہندودلتوں کو 400سال بعد سورام مندر میں داخلے کی اجازت مل ہی گئی ۔دلت رہنماء کا کہنا تھاکہ اترکھنڈ میں 399مندرایسے ہیں جہاں دلتوں کو ابھی بھی داخلے کی اجازت نہیں ۔ہندودھرم میں ذات پات کا نظام اتنا سخت اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اپنی مخصوص عبادت گاہوں میں بھی ان کے مخصوص طبقات ہی عبادت کرسکتے ہیں ۔مخصوص طبقات کا مخصوص بھگوان ہے جس کاکوئی دوسری ذات کا نام تک نہیں لے سکتا ۔حالانکہ دونوں ہی ہندو ہی ہیں ،لیکن خلیج اتنی کہ جیسے وہ ہندو دھرم کا نہیں بلکہ کو ئی مذہب پسند مسلمان ہوجسے یہ

ملیچھ کہتے ہیں ۔مسلمان سے تو ہندو ؤں کی دشمنی کی سمجھ آتی ہے کہ ایک لمبے عرصے تک مسلمانوں کی حکومت میں رعایا رہے اور پھر انگریزوں کے دور آیا اور اس کے بعد مسلمانوں نے ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان حاصل کیا ۔لیکن اپنے مذہب کے ماننے والوں کو ہی عبادت گاہوں،مذہبی رسم ورواج اور حتیٰ کہ اپنی کسی چیز کو چھونے تک نہ دینا ایک عجیب اور عقل سے دور نظرآتاہے ۔
کہتے ہیں کہ ایک دوکان دار بنیا ء تھا ۔اس سے جب کوئی نچلی ذات کا ہندو سوداسلف لینے آتا تو وہ سودا تول کر ہاتھ سے نہیں ایک مخصوص چیز سے پکڑاتا اور اسی چیز میں پیسے رکھ کر لیتا ۔پوچھنے والے نے پوچھا کہ یا ر پیسے تو دلت کے ہاتھ سے ہی آتے ہیں ناں تو دوکان دار بنیئے نے کہا کہ جناب والا لکشمی (دولت )پاک ہی رہتی ہے ۔یہ ہندو کی نفسیات ہیں ۔ہندو دھرم میں ہندوؤں کے ذات پات کا نظام برہمن،کھتری،ویش اور شودرکی تقسیم پر ہے ۔برہمن شرعی احکام کی نگہداشت اورالٰہی قوانین کی حفاظت کے لئے ،کھتری حکومت اورظاہری سلطنت کے کام یعنی دنیاوی کاموں کی باگ دوڑ ،ویش کھیتی باڑی،صنعت وتجارت ودیگر کاروبار اور شودرروں کو ان تینو ں کی خدمت گذاری کے لئے پیداکیا ۔یہ ایک ایسا ذات پات کا نظام ہے کہ آج بھی جب دنیا میں جدیدعلوم وفنون اور نئے نئے قوانین بن چکے ہیں اور دنیاگلوبل ویلج کے نام پر دھوکے کھارہی ہے ۔یہ قوانین جوں کے توں سیکولر بھارت میں موجود ہیں ۔حتیٰ کہ ان کی عبادت گاہیں تک علیحدہ ہیں ۔بھارت میں کرناٹک میں ایک مندر میں برہمنوں کے کھانے کے بعد وہاں پرے ان کے بچے کھچے کھانے پردلت الٹے لیٹتے ہوئے لوٹتے ہیں اور انسانیت کے نام پر مندر میں انسان کو ذلیل کیاجاتا ہے ۔ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم اس قدر ہے کہ اگر کوئی نیچ ذات کا کسی اونچی ذات کے بندے کوچھولے تو اس کاہاتھ کاٹ دیاجاتاہے ۔
ابھی حال ہی میں حیدرآبادیونی ورسٹی میں 25سالہ دلت طالب علم روہیت جوکہ سائنس ٹیکنالوجی اینڈسوسائٹی اسٹڈیزمیں پی۔ایچ ا۔ڈی کا طالب علم تھااسے صرف اور صرف نچلی ذات ہونے کی بناء پر نکال دیا جس پر اس نے خودکشی کرلی ۔اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جو ہمیں ہمسایہ ملک سیکولر ازم کے دعویدار بھارت میں مل جائیں گی ۔28اگست 2010ء کی بی بی سی کی خبر کے مطابق ریاست اترکھنڈ میں کلاسی تحصیل کے مینگروگاؤں کی پردھان کو دلت ہونے کی بناء پرگاؤں سے نکال دیا گیا تھا ۔جس کی شنوائی نہ ہوسکی اور وہ دبدر دھکے کھاتی کہیں کی کہیں چلی گئی۔اترکھنڈ ہی میں 400سال بعد ایک عبادت گاہ میں ہندوؤں کی ایک ذات دلتوں کو اجازت ملنا سیکولربھارت اور دنیاکی بڑی جمہوریت کی دعویدار کے منہ پر طمانچہ ہے ۔کیونکہ سیکولرکو میں جہاں تک جانتاہوں وہاں کوئی ذات پات کا نظام نہیں ہوتا ۔لیکن سیکولر بھارت میں اس کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور سیاسی رہنماء اس کا خیال رکھتے ہیں۔دلت طالب علم کی خودکشی کی وجہ کے پیچھے بھی ایک پڑھے لکھے سیاسی رہنماء کاہاتھ ہے ۔کبھی تو دلتوں کو شادی پرکھاناساتھ کھانے سے اس کی سزا ناک کاٹنے کی ملتی ہے اور کبھی ماں کو اپنے بچوں ساتھ زندہ جلانے کی سزادی جاتی ہے اورکبھی ملازم دلتوں کو عورتوں کو اجتماعی گینگ ریپ کانشانہ بنایاجاتا ہے اور اس پرمستزاد یہ کہ ان کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی ۔
سنہ 2011ء میں دلت کیمرہ کے نام سے ایک چینل آندھراپردیش میں شروع کیا اور اسے یوٹیوب پر اپ لوڈ کرناشروع کردیا۔اس کا ایک مقصد دلت پرہونے والے مظالم کاریکارڈ رکھنا بھی تھا ۔جس میں دلتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو واضح کیا گیا۔اس چینل میں اس وقت معلوم اطلاعات کے مطابق 25 کے قریب لوگ کام کررہے ہیں ۔جن کے پاس چار کیمرے ہیں اور 5,133سبسکرائبرز اور 2,379,093ویوورز ہیں ۔اس سے پہلے دلتوں نے 1977ء میں اپنا ایک اخبار نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن بھارت میں اس کو بیچنا مشکل ہوگیا تھا کیونکہ اسے رکھنے سے دوکان داروں نے انکار کردیا تھا ۔ماضی قریب اور بعید میں بھی دلتوں کے حق میں آوازاٹھانے کی بھارت میں کوشش ہوتی رہی ہے لیکن اسے کوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکی ۔اس دلت کیمرہ کی بنیاد بٹھارن رویچندراں نے رکھی تھی جن کا تعلق ایسے دلتوں سے ہے جوبیت الخلا کی صفائی کاکام کرتے ہیں ۔وہ بھارت کی ایسی جاتی سے تعلق رکھتے ہیں جو تامل ناڈو کی کے ایک ایسے ضلع سے ہیں جہاں ان کی ذات میں سے وہ پہلے فرد ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں ۔ان کا بی بی سی کے نمائندے کو کہنا تھا کہ انہوں نے واقعات کو قلم بندکرنا اسوقت شروع کیا تھا جب ان پر یونی ورسٹی کے 20طلباء نے بیک وقت حملہ کردیا تھا۔ان کا مزیدکہناتھا کہ دلتوں کے معاملے پر میڈیاکوئی شنوائی نہیں کرتا اورہمارے حق میں کہیں کوئی آواز نہیں اٹھتی ۔اس لئے دلتوں کو آوازدینے کے لئے دلت کیمرہ نامی چینل چلایا گیا تاکہ دلتوں کے متعلق آواز دنیاتک پہنچ سکے ۔بھارت میں ہندوہونے کے باوجود مسلمانوں جیسی لاچاری والی زندگی گذارنے والے یہ دلت اس وقت مسلمانوں کے ساتھ مل کر کوشش کررہے ہیں کہ اونچی ذات والے ہندوؤں سے جان چھوٹ سکے ۔
اس سب کواپنے قارئین کے سامنے رکھنے کا مقصد میرا ایک توقائداعظم ؒ کے نظریہ پاکستان کو ایک نئے طریقے سے رکھنا چاہتا تھاکہ جوقوم اپنی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ آج تک بھارت میں اچھا سلوک نہیں کرسکی وہ مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں کرسکتی ہے ؟ اور دوسری طرف دنیا کو بھارت میں انسانوں کی انسانوں کے ہاتھوں ہی ذلت ورسوائی کوسامنے لانا تھا۔اس وقت پاکستان میں ایک لابی نظریہ پاکستان اوردوقومی نظریہ کے خلاف کام کررہی ہے ۔قائداعظم ؒ کے فرمودات کو توڑمروڑکرسیکولر ازم سے جوڑاجارہاہے ۔میراان سب سے ایک اورصرف ایک سوال ہے کہ جوقوم آج تک اپنے مذہب کے لوگوں کو بنیادی حقوق تک نہیں دے سکی ۔وہ مسلمانوں کے ساتھ کیسے شیروشکر ہوسکتی ہے ۔



  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: بھارت میں ذات پات کانظام اوردوقومی نظریہ Rating: 5 Reviewed By: Unknown