Tuesday, September 27, 2016

خوش ذائقہ، گرما گرم چائے

کون سا ایسا مشُروب ہے جو پورے پاکستان میں با آسانی مل جاتا ہے اور اس کے بغیر مہمانوں کی خاطر تواضع کو ادھورا سمجھا جاتا ہے، پاکستانیوں میں سے اکثریت اس کی دلدادہ ہے بلکہ اگر نشئی کہوں تو غلط نہ ہوگا۔ ہم میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جن کو صبح اٹھ کر سب سے پہلے اس چیز کی طلب ہوتی ہے، جی ہاں بالکل صحیح سمجھے آپ وہ مشروب ہے گرما گرم، سوندھی سوندھی خوشبو بکھیرتی "چائے"۔

شاید کوئی ایسا شخص ہو جس نے چائے کا ذائقہ نہ چکھا ہو یا اس کو پسند نہ ہو۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر کوئی چائے کا دلدادہ ہے۔ پاکستان میں چائے دلوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی کے گھر رشتہ لے کر جائیں اور لڑکی آپ کو گرما گرم چائے پلائے تو کم از کم اس بات کا تو اطمینان ہوجاتا ہے کہ شادی کے بعد اچھی چائے مل جائے گی۔ رات کو دیر تک جاگ کے پڑھنا ہو یا صبح جلدی اٹھ کر کوئی ضروری کام سرانجام دینا ہو، چائے پی کر ہی سب ممکن ہو پاتا ہے۔
اگر بات کی جائے چائے کی تاریخ کی تو، آج سے 2 سو سال قبل لکھی جانے والی معروف طبی کتاب "مخزن الادویہ" میں پرانی عربی کتب سے حکیم مرزا قاضی کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے کہ، زمانہ قدیم میں چین کا ایک بادشاہاپنے ایک مصاحب سے ناراض ہو گیا اور اسے دیس نکال دیا۔ اسی مصاحب نے یہ مشروب اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر استعمال کیا مگر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے محسوس کیا کہ صرف اس کی بھوک کی تسکین ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کے جسم میں نئی قوت بھی آ گئی ہے۔
وہ وہاں سے شہر لوٹ آیا اور بادشاہ کے مصاحبین سے اس عجیب وغریب گھاس کا ذکر کیا، جو اس کی حیاتِ نو کا سبب بنی۔ مصاحبین سے یہ بات بادشاہ تک پہنچی۔ اس نے معتوب درباری کو طلب کیا اور بادشاہ اس کی قابل رشک صحت دیکھ کر حیران رہ گیا۔

شاہی طبیبوں کو اس کے ساتھ بھیجا گیا اور پہاڑوں سے وہ گھاس منگوا کر تجربہ کیا گیا تو وہی فوائد ظاہر ہوئے جو اس مصاحب نے بیان کیے تھے۔ چنانچہ اس وقت سے اس گھاس یعنی چائے کا استعمال شروع ہو گیا۔
روس میں پہلی بار چائے 1638ء میں وسطی منگولیا میں مقیم روسی سفیر ستارکوف کے ذریعہ ماسکو پہنچی۔ منگولیا کے حکمران التین خاں نے زار روس کو بطور تحفہ چائے کے دو سو پیکٹ ارسال کیے۔ زار روس اور اس کے مصاحبوں کو اتنی پسند آئی کہ اسے قومی مشروب کا درجہ دے دیا گیا۔ سولہویں صدی کے آخر میں اہل پُرتگال اس گھاس کو یورپ لائے۔ 1653ء میں پہلی بار پیرس پہنچی اور جلد ہی اس نے وہاں کے حکمرانوں کے دل میں گھر کر لیا۔ حتیٰ کہ 1658ء میں شاہی باغات میں اس کی کاشت شروع کر دی گئی۔ یہ بات تسلیم شُدہ ہے کہ یورپ کو چائے چکھانے کا سہرا ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سر ہے۔
چائے 1666ء میں لارڈ آرلنگٹن کے ذریعے براستہ ہالینڈ انگلستان پہنچی۔ اہلِ یورپ جو اپنے آپ کو عقل و دانش کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، مدتوں اس کے طریقہِ استعمال کو نہ سمجھ سکے۔ وہ چائے کو پانی میں پکا کر اس کا عرق پھینک دیتے اور پتیاں چبا لیتے تھے۔ سالہا سال کے بعد انہیں اپنی اس حماقت کا احساس ہوا۔
جہاں تک برصغیر میں چائے کے تعارف کا تعلق ہے وہ انگریز صاحب بہادر کے ذریعہ ہوا، جو تجارت کی آڑ میں ہندوستان میں قابض ہو گئے۔ جہاں جہاں ان کے قدم پہنچے وہاں وہاں چاہے بھی پہنچی۔ 1857ء میں جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے جب پورے ملک پر قبضہ کرلیا تو چائے نے بھی اپنا تسلط جما لیا۔ انگریز تو 1947ء میں رخصت ہوگیا لیکن چائے کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی۔
برصغیر والوں نے چائے نوشی میں یورپ اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے بغیر اب نہ کوئی تقریب مکمل ہوتی ہے، نہ مہمان نوازی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں برصغیر اور خصوصاً پنجاب کے لوگوں نے چائے کی بے حد مخالفت کی، لیکن چائے کمپنیوں نے گاؤں گاؤں جا کر مفت چائے پلا کر اس کا ایسا چسکا ڈالا کہ وہ غیر رسمی طور پر یہاں کا قومی مشروب بن کر رہ گئی۔
چائے کے معیار کے لحاظ سے 3 گریڈ بنائے گئے ہیں۔ اے، بی اور سی گریڈ کی تقسیم کینیا والوں نے کی ہوئی ہے۔ رنگ، ذائقے اور دانے کے حساب سے انہوں نے اپنے طریقے سے اس کی تقسیم کی ہے۔ ہر ایک گریڈ کی قیمت دوسرے سے مختلف ہے تاہم بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ سی گریڈ کڑک چائے ہوتی ہے۔ اسے مزدور پسند کرتے ہیں۔ پہلے 2 گریڈ میں خوشبو کا فرق ہوتا ہے، بعض سنجیدہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر جس شخص کی زبان کو جو ذائقہ لگ جاتا ہے، وہ ہمیشہ اسی کا مطالبہ کرتا ہے، جس طرح تمباکو نوش صرف اپنے پسندیدہ برانڈ کو ہی منہ سے لگاتے ہیں۔
جب چائے عوام الناس میں اتنا مقبول ہو تو پھر اس کا فائدہ تو کسی نے اٹھانا ہی ہے، جی ہاں بات ہے چائے کی پتی میں ملاوٹ کی، چائے میں کئی طرح سے ملاوٹ ہوتی ہے، ایک طریقہ یہ ہے کہ لوگ چنے کے چھلکے کو باریک پیس کر ہر پیکنگ میں 2،3 کلو ڈال لیتے ہیں۔ بعض لوگ کم معیار کی چائے میں کوئی رنگ ڈال دیتے ہیں، جس سے اس کا رنگ گہرا سرخ ہو جاتا ہے۔ ملاوٹ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کینیا کی چائے میں دوسرے ملک کی چائے ملا کر اسے اے گریڈ کہہ کر فروخت کرتے ہیں۔کچھ برانڈ ایسے ہیں جو مکسچر چائے بناتے ہیں تاہم یہ خیانت کے الزام سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہر مقام کی چائے میں کوئی نہ کوئی خاص خصوصیات ہوتی ہے۔ جب مکس چائے تیار ہو گی تو اس میں کئی خصوصیات بیک وقت جمع ہو جائیں گی۔ خالص اور اچھی چائے کی پہچان اس طرح کر سکتے ہیں کہ اس کا رنگ سیاہ ہو، ٹھنڈے پانی میں ڈالیں تو رنگ نہ چھوڑے۔ خالص چائے صرف گرم پانی میں اور آہستہ آہستہ رنگ چھوڑتی ہے۔2010-11 میں 25.03 بلین کی چائے ہم پاکستانی پی گئے تھے۔ پاکستان چائے اکیس ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں چائے کا استعمال بہت زیادہ ہے جبکہ اس کی پیداوار غیرمعمولی طور پرنہ ہونے کے برابر ہے۔ اٹھارویں صدی میں چائنا سے لایا جانے والا چھوٹا سا پودا سری لنکا میں لگایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سری لنکا چائے سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا تیسرا بڑا ملک بن گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے اس غیررسمی مشروب کو پاکستان میں پیداکرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہمارا زرکثیر بچ سکے، اور ذرا اب مجھےاجازت دیجئے کہ میں چائے نوش کرلوں کیونکہ میں آپ کے ہی قبیل سے تعلق رکھتا ہوں۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: خوش ذائقہ، گرما گرم چائے Rating: 5 Reviewed By: Unknown