Tuesday, September 27, 2016

ایوبیؒ کی تلاش

مسجد اقصیٰ کرہ ارض پر مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے ۔یہ جس تاریخی شہر میں واقع ہے اسے اسلامی تاریخ میں ’’بیت المقدس‘‘ اور بائبل کی تاریخ میں ’’یروشلم‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے ۔اہل اسلام کے ہاں اس کا تقدس ،ابتدائے اسلام سے ہی مسلم رہاہے۔اس مسئلہ کا مسلمانوں کے عقیدہ کے ساتھ براہ راست تعلق ہے ۔اسلامی عقیدہ کی رو سے یہ ان بے شمار انبیاء کرام کا قبلہ رہاہے جو محمدعربی ﷺ سے پہلے رہے ہیں ۔مسلمانوں کا قبلہ اول بھی یہی ہے جس کی طرف خودمحمدعربی ﷺاوائل اسلام میں منہ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔پھر اس کے ساتھ مسلمانوں کا مزید تعلق شب معراج کی شکل میں وجود میں آیا۔ارض مقدس بحر ابیض کے جنوبی ساحل کاوہ نقطہ ہے جہاں دنیاکے دو سب سے گنجان آباد براعظم ایشیااور افریقہ ملتے ہیں ۔صحرائے سینا،جوکہ فلسطین کاغربی حصہ ہے ،جنوب کی جانب سے بحر احمر اور شمال کی جانب سے بحر ابیض کوالگ کرتاہوا وہ خطہ ہے جوایشیااور افریقہ کے مابین خشکی کا سنگم ہے ۔یہی کھڑے ہوکر بحر ابیض کے دوسرے پار دیکھیں تو براعظم یورپ ہے ۔اس لحاظ سے فلسطین وہ خطہ ہے جوتین براعظموں کونہایت قریب پڑنے والاایک مقام ہے ۔اس لحاظ سے اس کی حیثیت اور بڑھ جاتی ہے ۔میں یہاں تاریخی اعتبار سے بات نہیں کرونگا بلکہ موجودہ یہودی مظالم وچیرہ دستیاں اورعالمی حمایت میرا موضوع ہیں ۔تاریخی اعتبارسے نظر پھر کسی کالم کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔پولینڈ،بلغاریہ،ہنگری اور آسٹریاسے آئی ہوئی ،تل ابیب کے عریاں ساحلوں پر پھرتی نیلی آنکھوں اورسنہرے بالوں والی بیکنی پوش گوریاں،جوثقافتی ہی نہیں نسلی لحاظ سے بھی یورپ کا پھیلاؤہیں ،آج بیت المقدس پر ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کے نسب کا’’حق ‘‘مانگ رہی ہیں اور ان کے اس ’’آبائی حق‘‘کیلئے یہاں صدیوں سے آبادابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر مسجداقصیٰ میں خداکی عبادت کرنے والوں کو مسجد خالی کرنے کے نوٹسز اور ان کی جگہوں پر زبردستی ان یہودیوں کو آباد کروایاجارہاہے ۔چار صدیوں تک خلافت عثمانیہ کی حکمرانی کے بعد 1917 ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لئے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہو گئی۔ 1930 ء تک ہولوکاسٹ کی وجہ سے اس میں بہت اضافہ ہو گیا۔ 1920ء ، 1921 ء ، 1929ء اور 1936 ء میں مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ عالمی برادی کی حمایت کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری رہا۔یاد رہے کہ 1915ء میں مسلمان تقریباََ 85.6%جبکہ یہودی 12.0%اس خطہ میں آباد تھے ۔1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیاجاتے جاتے برطانیہ اسرائیل کے قیام کے لوازمات پورے کرچکاتھا۔ اس میں جہاں اسلام دشمن قوتوں کی سازشیں کارفرما تھیں وہیں ہمارے عالم اسلام کی خامیاں ،کوتاہیاں اور کچھ شرپسندسازشی ٹولے کی یہودونصارٰی پر کرم فرمائیاں بھی تھیں۔حالانکہ یہ ساراخطہ تاریخی،ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے مسلمانوں کا تھا لیکن اس کے باوجود یہودی آبادکاروں کو سرزمین فلسطین دے کر مسلمانوں کے دل پر بٹھا دیا۔یہودی قوم جو کہ انبیاء کرام کی قاتل ہے آج انہی انبیا کی وارث بننے کا دعویدار ہے اور اس قوم پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے جس کے دور حکومت میں بیت المقدس امن کا گہوارہ تھا ۔اور یہودی قوم بغیرکسی خوف کے اپنی مذہبی ومعاشرتی سرگرمیاں سرانجام دیتی تھی ۔صلیبی دورحکومت میں یہی یہودی قوم کسمپرسی کاشکار رہ چکی ہے ۔برطانیہ کے بیت المقدس پر قبضہ اور اس کے بعد یہودیوں کی سرزمین فلسطین پر آباد کاری اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہودی قوم کس ذہنیت کی مالک ہے ۔فلسطینی جو کہ گذشتہ پندرہ سوسال سے اس سرزمین کے باشندے ہیں جبکہ اسرائیل کا جبری قیام تو آج کی بات ہے ۔اصل میں قیام اسرائیل عالم اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی منظم سازش ہے جس کے پیچھے یہودیوں کے بہترین دماغ کارفرماہیں اور صلیبیوں کی حمایت حاصل ہے۔اس چھوٹی سی مگر خطرناک ریاست کی وجہ سے عالم اسلام کے دوبازو جدا ہوگئے۔صیہونی ریاست مسلم خطوں کی وحدت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔الکفرملۃواحد کے مصداق برطانوی دورحکومت میں یہودیوں کی فلسطین کی سرزمین پر آبادکاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی ۔1918ء میں 55,000ہزار کے قریب یہودی آبادتھے جبکہ 1948ء میں یہودی آبادکاروں نے اس تعداد کو 6,46,000تک پہنچادیاتھا ۔یعنی پہلے یہودی صرف 8%تھے لیکن 48ء تک 31.7%تک پہنچ گئے۔1948ء تک یہودیوں کی 292کے قریب بستیاں برطانیہ قائم کرچکاتھا۔صیہونی ریاست نے اپنے جبری قیام کے ساتھ ہی 8لاکھ فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا تھا اور عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل 77فی صد اراضی پر قبضہ کرچکاتھا ۔موجودہ صورت حال 2014ء تک یہ ہے کہ مسلمان آبادی کی شرح تقریباََ21% فی صد ہے جبکہ یہودیوں کی شرح 75%کے قریب ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہودی آباد کاری اور مسلمانوں کی نسل کشی ہے ۔آج بھی شاید ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہو جس دن کسی فلسطینی کو اس کے گھر سے بے گھر نہ کیاجاتا ہو ،کسی فلسطینی بچے سے اس کے ماں باپ نہ چھینے جاتے ہوں ،کسی مسلمان بیٹی کی عصمت دری نہ کی جاتی ہواورکوئی ایلان کردی نہ شہید ہوتاہو۔فلسطین کی اگر موجودہ ہی تاریخ کی بات کروں تو جبری قیام اسرائیل کے فوراََ بعد ہی یہودیوں کا کینہ ظاہر ہونا شروع ہوچکاتھا۔21جولائی 1969ء کی صبح سویرے مسجد میں ہونے والی آتش زدگی جس سے مسجد اقصیٰ کے ایک بڑے حصے کی چھت متاثر ہوئی تھی حتیٰ کہ منبر صلاح الدین ایوبی بھی بری طرح متاثر ہواتھا آج بھی زمین دوز سرنگیں خود کر مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کمزورکرنے جیسے گھناؤنے کام یہی یہودی کررہے ہیں ۔سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد سے لے کر اب تک ایک لمبی جدوجہد ہے جو فلسطینی مسلمان جاری وساری رکھے ہوئے ہیں۔میں اگر یہ کہوں کہ تاریخ میں مسلم عروج وزوال کا نام اگر بیت المقدس ٹھہرادیاجائے تو بے جانہ ہوگا ۔بیت المقدس ہماری دینی ودنیاوی غیرت وحمیت کو جانچنے کا ایک زبردست پیمانہ ہے ۔جس کے کئی دعویدار موقع کی تاک میں رہتے ہیں ۔اس خطہ کی خوش قسمتی ہے کہ یہ خطہ کبھی مسلمان مجاہدوں سے خالی نہیں رہااور نہ مجاہدین اسلام اس سے دور !لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی ایک قیمت ہے جو کوئی کوئی مسلمان ہی ادا کرسکتاہے اور بلاشبہ فلسطینی ایسی نمازیں اداکرتے آئے ہیں ۔آج بھی فلسطینی مجاہدین دنیا بھی کی ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیل سے ٹکر لے کر ثابت کررہے ہیں کہ اسلام کے اصل نام لیوا ابھی تک زندہ ہیں اور اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والے موجود ہیں ۔حماس کے القسام میزائل جب یہودی آبادکاروں کے اوپر سے گذرتے ہیں تو ان کی گریہ وزاری دیکھنے لائق ہوتی ہے ۔دنیاکی بزدل ترین قوم ہندو اور یہود ہیں اور دونوں نے ہی مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کرکے ظلم وجبر کا بازار گرم کیاہواہے ۔آج بھی فلسطینی سنگ بار وں کے مقابلے میں جدیدترین اسلحہ ہونے کے باوجوداسرائیل فلسطینیوں کوان کے حق سے دستبردار کرنے سے قاصر ہے۔فلسطینی مہاجرین آج بھی اپنے آپ کو فلسطینی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور کسی اور ملک کی شہریت لیناگوارا نہیں کرتے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس زمین کا اصلی وارث سمجھتے ہیں اور دنیاکے کسی بھی کونے میں ہونے کے باوجود اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوئے۔
فلسطین کے معاملے میں عالم اسلام کی خاموشی جہاں فلسطینیوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہی ہے وہیں عالم اسلام کے عام مسلمانوں کے جذبات بھی مشتعل کررہی ہے ۔یہ لاواکبھی بھی پھٹ سکتاہے کیونکہ اس وقت ہر طرف مسلمان ہی مظالم ودہشت گردی کا شکار ہیں اور عالم کفر اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کررہاہے ۔او۔آئی ۔سی ،موتمر عالم اسلامی سمیت کتنی تنظیمیں ہیں جو صرف مسلمان ممالک کی ہیں جن کا بنیادی مقصد عالم اسلام کے حقوق کاتحفظ کرناہے ۔ان میں سے بعض کے بنیادی مقاصد میں فلسطین کامسئلہ سرفہرست ہے ۔لیکن ان سب کے باوجود عالم اسلام اس مسئلے کوحل کرنے میں ناکام ہوچکاہے ۔اقوام متحدہ کا کرداردنیاکے سامنے ہے۔فلسطین،کشمیراوربرمامیں مسلمانوں کو زندہ جلایاجارہاہے ۔کتنی ملالائیں ،کتنے ایلان کردی ہیں جنہوں نے سکول توکیا اپنے والدین کا منہ تک نہیں دیکھا۔افغانستان،عراق اور شام جیسے اسلامی ممالک جنگ کی وجہ سے بری طرح سے تباہ ہوچکے ہیں اور اقوام متحدہ جوکہ بڑی طاقتوں کالے پالک ادارہ ہے اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔اقوام متحدہ میں آج تک کتنے اسلامی مسائل حل ہوئے ہیں ان کی نسبت نکال کر ان کااگر تجزیہ کیاجائے اور دیکھاجائے تو وہ مسائل حل ہوئے جن سے اسلام دشمن قوتوں کو کوئی سروکار نہیں تھا ۔اس کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے یہ ادارہ غیرمسلم ریاستوں کے حقوق وفرائض کے لئے بنایاگیاتھا ۔مسلم ممالک اور مسلمانوں سے اسے کوئی دل چسپی نہیں۔ ان حالات میں بھی عالم اسلام کے حکمران خواب غفلت میں یہ سوچ رہے ہیں کہ اللہ کی غیبی مددآئے گی اور قبلہ اول کوآزادکروادے گی ۔اللہ تب تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک اسے خودحالت بدلنے کا خیال نہ آئے اور وہ تگ ودو نہ کرے ۔غیبی مددکا آنا بھی اسی وقت ہی ممکن ہے جب اسوہ حسنہ ﷺپر عمل کرتے ہوئے فضاء بدر پیداکرنے کی صلاحیت پیداکرلیں ۔ہمارا حکمران طبقہ بشمول عرب وعجم یہ یادرکھیں کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی مسلمان ظلم وستم کاشکار ہوتا ہے تو اس کا گناہ عالم اسلام کے سر پرہے کیونکہ رعیت کے متعلق لازمی سوال کیاجائے گا۔آج بھی مسجد اقصیٰ کسی ایوبی کی راہ تک رہی ہے ۔

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: ایوبیؒ کی تلاش Rating: 5 Reviewed By: Unknown