Tuesday, September 27, 2016

ہندوانتہاپسندی کا دوسرا نام شیو سینا

کون جانتا تھا کہ مراٹھی زبان کے ہفتہ وار جریدے کا کارٹونسٹ ، مدیر اور کالم نگار بال ٹھاکرے ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھے گا جو مسلم کشی میں ہندوؤں کی دوسری جماعتوں کو مات دے دی گی ۔اپنے ہفتہ وار کالم کو بال ٹھاکرے نے ’’پڑھو اور اٹھو ‘‘ کانام دیاتھا جس میں غیرمراٹھی /غیر مہاراشٹری افراد کے خلاف جذبات کو بھڑکایاجاتا تھا کہ کس طرح سے وہ مراٹھی بولنے والوں کو نوکریوں اوردیگر ترقی کے مواقعوں سے محروم کررہے ہیں ۔یوں مراٹھی بولنے والوں کاپہلااور آسان ہد ف جنوبی ہندوستان کے باشندے بنے جنھیں شیوسینا کا بانی بال ٹھاکرے حقارت سے مدراسی کہاکرتاتھا۔30اکتوبر 1966ء کوٹھاکرے نے شیواجی پارک میں اپنی پہلی ہی تقریر سے شیوسینکوں میں آگ لگادی جس کے نتیجے میں وہ ان ریستورانوں پر حملہ آور ہوئے جو جنوبی ہندوستان کے باشندوں کے تھے ۔اسی طرح کے حملے پھر شیوسینا کا طرہ امتیاز بنے ۔وائی بھوپرندارے کی کتاب ’’سینا کہانی‘‘ کے مطابق بسا اوقات شیوسینک دفاتر میں داخل ہوکر بڑے افسروں کا گھیراؤکرتے اور’’لنگی والوں ‘‘اور’’ بھیاؤں‘‘ پرشدید تشددکرتے جو ان کے حقوق پر ان کے بقول غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہیں ۔وہ غیرمراٹھی والوں کے کاروبار پرحملہ کرتے اور اپنی پوری کوشش کرتے کہ غیرمنصفانہ ،استحصالی اور امتیازی نظام حکومت سے اپنا خرا ج وصول کریں ۔
1966ء میں شیو سینا کے قیام کی سب سے بڑی وجہ ممبئی کی گوناگوں معیشت میں مہاراشٹریوں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ زیادہ وقت نہیں لگا کہ مسلمان مخالف ہندوتوا نظریہ شیو سینا کی گھٹی میں پڑ گیا۔1967ء میں درگاڑی قلعہ میں واقع ایک جگہ پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا۔ مسلمان اسی کے قریب نماز ادا کرتے تھے اور بال ٹھاکرے نے اعلان کیا کہ وہ 8 ستمبر کو اس مقام پر زعفرانی پرچم بلند کریں گے اور اس کے اندر جاکر مذہبی تقریب منعقد کریں گے۔ پولیس نے علاقے میں اجتماع پر پابندی لگا دی لیکن شیو سیناکے کارکن باز نہ آئے۔ وہ پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس مقام پر جمع ہوئے اور عبادت کی۔پھر 1970ء میں شیو سینا نے ممبئی کے نواح میں بھونڈی کے مسلم اکثریتی علاقے میں فسادات کی ٹھانی۔ اس علاقے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تناؤ کی کیفیت پہلے ہی شدید تھی کیونکہ شیو سینا نے شیوا جی جیانتی کا جلوس مسلمانوں کی آبادی سے گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ نتیجہ زبردست ہندو مسلم فسادات کی صورت میں نکلا اور 250 سے زیادہ افراد مارے گئے۔لیکن شیو سینا کو سب سے زیادہ شہرت 1992ء میں ممبئی کے ہندو مسلم فسادات سے ملی، جس کے بعد وہ اہم ترین قوت تھی۔ خونریزی کی تحقیقات کرنے والے سری کرشن کمیشن نے شیوسینا کو مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار قرار دیا۔ جس نے ہنگاموں میں مرنے والے 900 افراد میں سے زیادہ تر کو قتل کیا تھا۔ جب بابری مسجد شہیدکی گئی تھی تو بال ٹھاکرے نے کہا کہ’’ یہ عظیم کام شیوسینکوں نے سرانجام دیا ہے جس پر اسے فخر ہے‘‘ ۔ سینکڑوں لوگوں نے فسادات کے بعد ممبئی چھوڑ دیا اورآج تک لوٹ کر نہیں آئے۔
1992ء کے ہنگاموں سے کہیں پہلے فروری 1969ء میں مہاراشٹر،کرناٹک سرحد کے تنازع پر شیو سینا نے ممبئی کو یرغمال بنا لیا تھا۔ نائب وزیراعظم مرار جی ڈیسائی شہر کا دورہ کرنے پہنچے تو شیو سینا کے کارکنوں نے ان کا راستہ روکنے کا ارادہ کیا۔ ہزاروں سینک ڈیسائی کے راستے میں آ گئے اور سخت پولیس سیکورٹی کے باوجود چند گاڑی کے سامنے آنے میں کامیاب ہوگئے۔ گاڑی تیزی سے نکلی اور چند سینکوں کو زخمی کرتی ہوئی چلی گئی۔ بس پھر کیا تھا؟ وہی ہوا جو ایسی تنظیمیں کرتی ہیں۔ گاڑی کے شیشے توڑ دیے گئے اور شہر میں ہنگاموں کا آغاز ہوگیا۔ گھیراؤ، پتھراؤ، بسوں، دکانوں اور ریستورانوں کو آگ لگانا اور پھر پولیس کی فائرنگ سے 59 افراد کی ہلاکت۔ بال ٹھاکرے کی گرفتاری سے حالات مزید خراب ہوگئے۔ جب تک اس نے جیل سے پرامن رہنے کی اپیل نہیں کی تب تک شدت میں کمی نہیں آئی۔1960ء کی دہائی میں ایک مرتبہ شیو سینک بڑی تعداد میں سرخ جھنڈے لے کر ترقی پسند مصنف اچاریہ اترے کے جلسے میں پہنچ گئے۔ جیسے ہی اترے نے بولنا شروع کیا، انہوں نے چپلیں اتار کر انہیں مارنا شروع کردیں۔ پرندارے کی کتاب کے مطابق اترے کو قریبی ہسپتال میں پناہ لینی پڑی کیونکہ سینکوں نے ان کی گاڑی تباہ کر ڈالی تھی۔1970ء میں سینا کے کمیونسٹ مخالف احساسات نئی بلندیوں تک پہنچے جب سی پی آئی کے رہنما کرشن ڈیسائی کو قتل کیا گیا۔ ابتداء میں سات سینک گرفتار ہوئے اور آخر میں 16 کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ اس قتل میں ملوث افراد کو مبینہ طور پر خود بال ٹھاکرے نے شاباشی دی تھی، لیکن اس معاملے میں انہیں کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔
شیوسینا جسے بال ٹھاکرے نے 19جون 1966ء میں قائم کیا تھا ۔جسے مراٹھی ہندوراجہ شیواجی کے نام سے منسوب کرکے شیوسینا پکاراجاتا ہے۔شیوا جی کو بعض مورخ مغل بادشاہوں کے خلاف جدوجہد کے علم بردار کے طور پر پیش کر تے ہیں۔ بال ٹھاکرے نے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا ۔ بال ٹھاکرے کے مطابق یہ تنظیم صرف مراٹھی نوجوانوں کو انصاف دلوانے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ لیکن اس کی اگر تاریخ دیکھیں تو یہ غیر مراٹھیوں کے خلاف عموماََ ایک تشد د پسنداورخصوصاََ مسلمانوں کے خلاف انتہاپسند نظر آتی ہے ۔ انھوں نے مسلح جھتے تیار کیئے جو جب چاہیں کسی کو بھی بال ٹھاکرے کے حکم پر تشدد کا نشانہ بناسکتے تھے۔ سیاسی حریفوں، تارکین وطن اور یہاں تک کہ میڈیا پر شیوسینکوں کے حملے عام بات ہے۔ایک گاڈ فادر کی طرح بال ٹھاکرے ہر تنازعے کو حل کرنے لگا۔ یہاں تک کی فلموں کی نمائش میں بھی اس کی من مانی چلنے لگی۔بال ٹھاکرے کی زندگی سے جڑی کئی خیالی کہانیاں عام ہونے لگیں۔کہا جاتا ہے کہ بال ٹھاکرے جرمنی کے سابق ڈکٹیٹر ہٹلر کا مداح تھا۔شیوسینا کا اثر ممبئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک ہی محدود رہا اور ابتدا میں ریاست کے دوسرے علاقوں میں پارٹی کا کچھ خاص اثر نہیں تھا۔بال ٹھاکرے کو ممبئی میں ہی مقبولیت حاصل تھی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس نے ابتدائی دور میں شیوسینا کو یا تو نظر انداز کیا یا پھر کئی معاملات میں کمیونسٹوں اور اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے میں شیوسینا سے مددلی۔لیکن اسّی کی دہائی کے دوران شیوسینا ایک بڑی سیاسی قوت بن گئی جو ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنی دعویداری پیش کر رہی تھی۔جب 1995ء میں مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بنی، تو حکومت سے باہر رہنے کے باوجود تمام فیصلے بال ٹھاکرے ہی کرتا تھا۔ اس کی جماعت مرکزی حکومت میں بھی شامل رہی اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر ہمیشہ دباؤ قائم رکھا۔
جس طرح کراچی میں ایم کیو ایم بھتہ،اغوا،دھاندلی دھونس میں ملوث رہی ہے بالکل اسی طرح شیوسینا نے ممبئی میں اپنا کاروبار اتنا چمکایا کہ بھارتی فلم انڈسٹری تک اس سے محفوظ نہ رہ سکی ۔نفرتوں کا سوداگر بال ٹھاکرے دنیا کے ان بدقسمت لوگوں میں سے ایک تھا جس کے مرنے پر اس کے چاہنے والوں کے اتنے آنسو نہیں بہے جتنا اس کے مخالفین نے سکھ کا سانس لیا۔ تشدد، نفرت، خون، دشمنی، بھتہ خوری اور ہر سنگین جرم سے مزین بال ٹھاکرے کی زندگی مسلسل تنازعات کی زد میں رہی۔ ذاتی زندگی کی محرومیاں اور مشکلات اپنی بدترین بربریت اور وحشیانہ پن کے ساتھ باہر آئیں اور پھر وہ ممبئی کا سب سے طاقتور ترین شخص بن گیا۔ بڑے بڑے بدمعاش اور گینگ ماسٹرز اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے، کئی انڈین فلموں کے ’’ولن‘‘ کے کردار بال ٹھاکرے کی شخصیت کو سامنے رکھ کر ہی تخلیق کیے گئے۔اگرچہ 2004ء میں بال ٹھاکرے نے شیوسینا کی لگام اپنے بیٹے ادھو ٹھاکرے کے ہاتھ میں دے دی تھی لیکن 17نومبر 2012ء کو اپنی وفات تک بال ٹھاکرے شیوسیناکی عملی کمان کرتا رہا۔تب سے لے کر اب تک شیوسینا کی کمان ادھو ٹھاکرے کے ہاتھ میں ہے ۔ویسے قدرت کا بھی عجیب نظام ہے جو شخص ساری زندگی اسلام اور مسلمان کا وجود برداشت نہیں کرتا تھا ۔آخری وقت میں موت کے منہ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرنے والے تین معالجوں میں سے دو مسلمان تھے اور اس کی موت کا اعلان کرنے والے بھی مسلمان ڈاکٹر ہی تھے ۔
ابھی حال ہی میں بھارتی کرکٹ بورڈ پر حملہ کرکے شیوسینا نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف اسلام دشمنی میں سب سے آگے ہے بلکہ بھارتی عوام کو کرکٹ جیسے کھیل سے دوررکھنے کی کوششوں میں بھی مصروف عمل ہے ۔شیوسیناکوآپ آرایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ )کی کاپی کہہ سکتے ہیں ۔بس فرق اتنا ہے کہ غیر مراٹھیوں کے خلاف بھی برسرپیکاررہ چکی ہے ۔شیوسینا نے مہاراشٹر سے تقریباََ40لاکھ کے قریب مسلمانوں کو بے گھر کیا ہے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔بھارتی رہنماؤں نے روزاول سے ہی پاکستان کو تسلیم نہیں کیاتھااور آج بھی اکھنڈ بھارت میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہی ہے۔بھارتی انتہاپسندوں اور دہشت گردوں اورشیوسینا جیسی جماعتوں کو ہمیشہ سے ہی حکمراں جماعتوں کی مدد حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے شیو سینا جیسی جماعتیں مسلم کشی اور ظلم وستم روارکھنے میں بالکل آزاد ہیں ۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گرادانہ کاروائیوں میں جہاں بھارتی انٹیلی جنس ملوث ہے وہیں شیوسینا جیسی دہشت گرد جماعتوں کی آشیرباد اور عملی مدد بھی ان اداروں کوحاصل ہے۔ابھی حال ہی میں سمجھوتہ ایکسپریس کی بغیرکسی وجہ کے منسوخی جس کی وجہ سے کئی پاکستانی خاندان بھارت میں پھنس کررہ گئے اور وہاں انہیں فٹ پاتھوں پررات گذارنی پڑی۔پاکستانی کرکٹ ٹیم ہو۔ہاکی کی ٹیم ہویاپھر کوئی بھی پاکستانی اداکار ہواس کی مخالفت میں کوئی اور ہونہ شیوسینا سرفہرست ہوگی۔پاکستانی گلوکار غلام علی کاپروگرام منسوخ کرانے میں شیوسینا ملوث تھی اور پاکستانی سابق وزیرخارجہ خورشید شاہ قصوری کی کتاب کی ممبئی میں تقریب رونمائی کی مخالفت بھی شیوسینا کا ہی کارنامہ ہے ۔تقریب توہوگئی لیکن اْس سے پہلے شیوسینا کے کارکنوں نے کتاب کی رونمائی کا اہتمام کرنے والے ادارے کے سربراہ سدھیندر کلکرنی کو اْن کی کار سے اتار کر اْن کے چہرے پر سیاہ رنگ مل دیا۔ اس واقعہ کے بعد سندھیندر کلکرنی نے خورشید محمود قصوری کے ساتھ ممبئی میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ "یہ بھارتی ثقافت، جمہوریت اور آئین کی مخالفت ہے"۔ افسوس سندھیندر کلکرنی کو شاید یہ نہیں معلوم کہ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی حکومت میں بھارتی ثقافت دہشت گردی کو کہا جاتا ہے باقی سارے الفاظ بے معنی ہیں۔ سندھیندر کلکرنی نے تو اب تک اپنے چہرے کی سیاہی صاف کرلی ہوگی لیکن شیوسینا کی حرکتوں سے بھارت کا سیاہ ہونے والا چہرہ صاف ہوناناممکن ہے ۔

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: ہندوانتہاپسندی کا دوسرا نام شیو سینا Rating: 5 Reviewed By: Unknown