Tuesday, September 27, 2016

جوبویاوہیں کاٹ رہے ہیں

پاکستان سے کئی آوازیں بھارتی مسلمانوں اور اقلیتیوں کے حق میں اٹھتی رہتی ہیں جس پر بھارتی میڈیا اور مقتدر حلقے سیخ پاہوتے رہتے ہیں ۔لیکن اس بار یہ آوازیں بھارت کے اندر سے اٹھ رہی ہیں اور آوازیں بھی وہاں سے اٹھ رہی ہیں جو بھارت کا بطور سیکولر دنیابھر کے سامنے امیج بناتے رہے ہیں ۔بھارتی مسلمانوں اور اقلیتیوں کے حق میں یہ اٹھنے والی آوازیں بھارتی ادیبوں،فلم سازوں ،اہم حکومتی اداروں کے سابق اہلکاروں، ایک سائنس دان اور عام بھارتی شہریوں پر مشتمل ہیں ۔کہاجاتا ہے کہ سب سے حساس لوگ ادیب ہوتے ہیں اور آج کابھارت اپنے ہی ادیبوں کی مخالفت کاسامنا کررہاہے ۔بھارت جس سیکولر ازم کا دنیاکے سامنے ڈھنڈورا پیٹ رہاتھا وہ اب سب کے سامنے آچکاہے ۔جو بھارت مسلمانوں اوردیگر اقلیتیوں سمیت نچلی ذات کے ہندوؤں پر ظلم وستم کابازار گرم کئے ہوئے تھا آج وہی بھارت ان کے حقوق کی بات کررہاہے۔کل تک بھارتی مسلمان ہندوؤں کے ظلم کا نشانہ بنتے تھے لیکن جب انتہاپسندوں کی حکومت نے آگے بڑھتے ہوئے نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی تختہ مشق پر رکھ لیا تو انہیں سمجھ آئی کہ ظلم کیاہوتا ہے ۔جب ادیبوں اورفلمسازوں پر ہندوانتہاپسندوں نے من مانی کرنے کی کوشش کی توانہیں سمجھ آئی کہ ہم نے جس سانپ کودودھ پلایا تھا وہ ہمیں کو ڈسنے کو آچکاہے تو انہوں نے بھی انتہاپسندوں کے خلاف آوازاٹھاناشروع کی۔ویسے میرے بزرگوں کا کہناہے کہ ہندواور یہودی کبھی بھی تمہارے سگے نہیں ہوسکتے۔بھارت میں عیدالاضحی کے موقع پر گائے کے ذبح کرنے پر پابندی لگائی گئی جبکہ بھارت کے مسلمانوں کا مؤقف ہے کہ گائے ذبح کرنا ان کا مذہبی فریضہ ہے جبکہ ہندو گائے کو اپنی ماں کادرجہ دیتے ہیں اس لئے انتہاپسندوں کی حکومت میں گائے کے ذبح کرنے پرپابندی لگ چکی ہے۔حیرت ہے کہ گائے کے ذبح کرنے پر پابندی ہے لیکن ایک انسان کے قتل پر کوئی پابندی نہیں بلکہ جتنے زیادہ مسلمان قتل کئے جائیں بھارت میں اتنا بڑاعہدہ ملتاہے ۔وہ بھارت جو اسلام دشمنوں کواپنے ہاں پنا ہ دیتاہے اور ان کی حفاظت کرتاہے اس کی ایک ریاست ہریانہ کا وزیراعلیٰ منوہرلعل کہتاہے کہ آزادی اتنی سی ہونی چاہیئے جس سے دوسرے کے جذبات کوٹھیس نہ پہنچے۔میراسوال ان سے یہ ہے کہ جب آپ نے بابری مسجد شہیدکی تھی اور جب گجرات کے قصائی نے مسلمانوں کو شہیدکیاتھااور مذہبی اوراق کو جلایا تھا کیا اس وقت مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچی تھی؟اس وقت بھارتی آئین کہاں تھا؟ کشمیر میں آپا آسیہ اندرابی نے گائے ذبح کرکے یہ واضح پیغام دے دیا کہ مسلمان ایک آزاد قوم ہیں ۔یہ ظلم تو سہہ سکتے ہیں لیکن مذہبی شعارسے پیچھے ہٹنا مسلمان نے نہیں سیکھا۔شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب سیکولر بھارت میں سیکولر چہرے پر کوئی کالک بھارتی انتہاپسند نہ ملتے ہوں ۔ابھی حال ہی میں کرکٹ کا جنازہ جس طرح سے نکالا گیاہے اور آئی سی سی کی طرف سے بھیجے گئے پاکستانی ایمپائر کو ذلیل کیا گیااور پی سی بی چئیرمین کے ساتھ میٹنگ کے وقت جس طرح انتہاپسندوں نے بھارت کا سیکولرازم دنیاکو دکھلایا ۔وہ یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ بھارت کس قسم کا ملک ہے ۔یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہاہے بھارت مسلمانوں کے اوپر عرصہ حیات تنگ کرچکاہے جسے اب وہاں کے انتہاپسند پایہ تکمیل تک پہنچارہے ہیں اوربھارت کو صرف ہندودیش بنانا چاہ رہے ہیں ۔اسی لئے تو ہندو کی سکھوں سے بھی ٹھن چکی ہے ۔ہندوستان صرف ہندوؤں کا نعرہ لگانے والے یہ بھول چکے ہیں کہ مسلمانو ں نے ایک لمبے عرصے تک ان پر حکومت کی ہے ۔ہندوؤں کو تو یہ حکومت کوئی 68سال پہلے ملی ہوگی لیکن مسلمان پچھلے چودہ سوسال سے دنیاکے کسی نہ کسی بڑے حصے پر حکومت کرتے آرہے ہیں ۔
بات کہاں سے کہاں جاپہنچی۔امریکی صدرکاکہناہے کہ ہندوستان میں عدم برداشت نے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے خیالات کو متاثر کیا ہے اور اس بیان کے کچھ ہی عرصے بعد ایک اخبار نے مودی سے خاموشی توڑنے کی اپیل بھی کی تھی۔ اس صورت حال کے پیش نظر ایک غیرملکی اخبار کا یہ لکھنا بالکل بجا تھا کہ ’’مودی کی مسلسل خاموشی لوگوں کو یہ اشارہ دے رہی ہے کہ نہ تو وہ شدت پسند عناصر کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کی سب سے اہم مثال وہاں کے ایک دانش ور ایم ایم کل برگی کا اگست میں ہونے والا قتل اور اس سے قبل دو مزید اہم شخصیات کا قتل ہے ۔یم ایم کال برگی مدراس کے ہمپی شہر میں واقع کنڑ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر تھے۔وہ بتوں کی پوجا اور اْن کی حیثیت پر کھل کر تنقید کرتے تھے، جس پر کٹر ہندوؤں کے کئی دھڑے ان کے خلاف تھے اور آئے دن انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔2014 میں ہونے والے ایک سیمینار کے دوران انہوں نے ہم عصر ادیب یو آر اننتمورتی کی کتاب سے ایک حوالہ دیا تھا ،’’میں نے بچپن میں ایک بْت پر پیشاب کردیا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے بدلے میں مجھ پر عذاب نازل ہوتا ہے کہ نہیں۔‘‘ بس پھر کیا تھا۔ صوبے بھر میں اننتمورتی اور ان کے خلاف مظاہرے کیے گئے، یہاں تک کہ ’’بجرنگ دل‘‘ کے مظاہرین نے ان کے گھر کے سامنے بھی مظاہرہ کیا اور ان کے گھر پر پتھر اور بوتلیں پھینکی گئیں۔ ایم ایم کال برگی کے قتل کے سلسلے میں ابتدائی طور پر ہندوؤں کی ایک مذہبی تنظیم ’’رام سینا‘‘ کے مقامی راہ نما کو اس بنا پر گرفتار کیا گیا ہے کہ اْن کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر جو بیانات آئے ان پر اْس کی تصویر لگی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ پولیس ابھی تک ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں لگاسکی، جس سے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ انہیں اور ان سے قبل قتل ہونے والی شخصیات تک پہنچنے والے خفیہ ہاتھوں کے پیچھے نہ صرف ہندو انتہاپسند تنظیمیں موجود ہیں بلکہ انہیں یہ بھی سہولت حاصل ہے کہ اب بھارت پر حکومت کرنے والا شخص بھی ان ہی کا ہم خیال ہے۔ اس سال کے شروع میں مہاراشٹر میں سی پی آئی کے 82 سالہ راہ نما گووند پانسرے کو بھی اْس وقت گولی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ بیوی کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے۔ گووند پانسرے نہ صرف مذہبی توہم پرستی کے خلاف تھے بلکہ انہوں نے ہندو معاشرے میں کچلے ہوئے طبقوں کی آزادی کے لیے بھر پور جدوجہد کی تھی۔ اْن کے قتل پر مہاراشٹر کی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ایک لیڈر کا کہنا تھا کہ مہاراشٹر جیسی ترقی پسند ریاست کے لیے ایسے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ کسی شخص پر نہیں بل کہ ایک نظریے پر کیا گیا ہے۔دو سال قبل ہندو مذہب کو توہم پرستی اور جادو ٹونے سے پاک کرنے اور سماج کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر نریندر دابھولکر کو بھی دو حملہ آوروں نے گولی مار دی تھی۔ ممبئی میں معروف گلوکار جگجیت سنگھ کی یاد میں ہونے والے پروگرام کو محض اس لیے ملتوی کیا گیا کہ شیو سینا نے اس میں شامل پاکستان کے معروف گلوکار غلام علی کو دھمکی دی تھی کہ وہ اس پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔اس کے ساتھ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کی کتاب پر ہونے والی تقریب کی مخالفت کرتے ہوئے پروگرام کے آرگنائزرکلرنی کے منہ پر کالک مل دی گئی۔ 
بھارت میں علم و ادب اور روشن خیالی کے علم بردار تین اشخاص کے قتل، گائے کا گوشت کھانے کی پاداش میں ایک غریب مسلمان کے قتل اور ان جیسے دوسرے واقعات کے پیش نظر بھارت میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں ہندی، کنڑ، پنجابی، کوکنی، گجراتی، انگریزی، ملیالم اور دوسری زبانوں کے ادیبوں نے ساہتیہ اکیڈمی کی طرف سے دیے جانے والے انعامات واپس کر دیے۔اس سلسلے میں ہندی کے ادیب، صحافی اور شاعر اودے پرکاش نے سب سے پہلے ساہتیہ اکیڈمی کو اپنا وہ انعام واپس کیا جو انھیں اپنی طویل کہانی ’’موہن داس‘‘ اور دوسری کہانیوں پر دیا گیا تھا۔جن دوسرے ادیبوں نے ساہتیہ اکیڈمی کو اپنے ایوارڈ واپس کیے اْن میں بزرگ ناول نگار نین تارا سہگل کا نام بھی سرفہرست ہے۔نین تارا سہگل انگریزی زبان میں لکھتی ہیں اور انہیں 1985میں ان کے ناولRich like us پر یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ہندی کے معروف شاعر اشوک واجپائی نے بھی اپنا ایوارڈ یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ حکومت عوام اور قلم کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔نین تارا نے جو سابق وزیراعظم نہرو کی بھانجی ہیں، یہ تک کہہ دیا کہ ’’جو بھی ہندو مذہب کی بدصورت اور خطرناک تبدیلیوں کی کسی بھی جہت پر سوال کرتا ہے اْسے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے، ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر قتل کردیا جاتا ہے۔‘‘ جن دوسرے ادیبوں اور شاعروں نے ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈ واپس کیے اْن میں انگریزی ادب کے نقاد گنیش دیوی، گجراتی زبان کے ادیب انل جوشی، ملیالم کی مشہور مصنفہ سارہ جوزف اور ملیالم زبان ہی کے ادیب سچداندن کے ساتھ ششی دیش پانڈے کا نام شامل ہے۔پنجابی کے جن شاعروں اور ادیبوں نے اپنے ایوارڈ واپس کیے اْن میں مشہور ناٹک کار اجمیر سنگھ اولکھ، اتم جیت سنگھ، مشہور کہانی کار وریام سنگھ سندھو، ناول نگار بلدیو سنگھ سڑک نامہ اور ناول نگار گربچن سنگھ بھلر کا نام سر فہرست ہے۔ یاد رہے کہ گربچن سنگھ بھلر پنجابی کے اہم کہانی کار اور ناول نگار کے علاوہ ایک صحافی کے طور پر بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں اور کچھ عرصہ قبل ’’پنجابی ٹربیون‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ پنجابی کے اہم ناٹک کار آتم جیت کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والے ایسے افسوس ناک واقعات پر چپ نہیں رہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آج کچھ طاقتیں مذہبی رواداری کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں مگر سرکاری حلقے ان واقعات کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ معروف فلم ساز مہیش بھٹ نے خورشید محمود قصوری کے سلسلے میں ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ’’اس حملے نے ہمارے دستور کا مذاق اْڑایا ہے‘‘۔سابق بھارتی نیول چیف ایڈمرل ایل رام داس کا کہنا ہے کہ شیو سینا جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہی ہے اس سے ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔جبکہ بھارت کے نامور سائنس دان پی ایم بھارگو کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں’ ’بڑھتی ہوئی عدم برداشت‘‘ کی وجہ سے اعلیٰ ترین سرکاری ایوارڈ واپس کر دیں گے۔
مندرجہ بالا واقعات کودیکھتے ہوئے میراان دانشوروں ،ادیبوں،لکھاریوں،اوربھارتی شہریوں کو یہ کہنا ہے کہ یہ سب اس کی سزا ہے جو تم نے زہرمسلمانوں کے خلاف اپنی نسل تک منتقل کیا ہواہے ۔جبکہ پاکستان میں نئی نسل آج بھی ہندوؤں کو ان کی مذہبی رسوماتاوردیگر حقوق دینے کی نہ صرف حامی ہے بلکہ ہرمشکل وقت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی نظرآتی ہے ۔بھارت اس وقت کشمیر میں آزادی کے متوالوں کے ہاتھوں جس طرح اپنی فوج کی درگت بنوارہاہے وہیں اب سکھ بھی اس کے خلاف سینہ سپرہوچکے ہیں۔اورنچلی ذات کے ہندو تو پہلے ہی کوئی بہانہ ڈھونڈرہے ہیں کہ کب موقع ملے اور انہیں ان اونچی ذات کے پنڈتوں سے آزادی ملے ۔

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: جوبویاوہیں کاٹ رہے ہیں Rating: 5 Reviewed By: Unknown