Tuesday, September 27, 2016

اُدھر احتجاج کون کرنے دیگا !



سوموار کا دن نوکری کرنے والوں کے لئے ایک بھیانک خواب کی حیثیت رکھتاہے اور اگر سوموار کو بھی گھر سے لیٹ نکلاجائے تو یہ بھیانک خواب مزید بھیانک ہوجاتا ہے ۔ایسا ہی اس بار میرے ساتھ ہوا میں گھر سے مقررہ وقت سے دیر سے نکلا اور بائیک پر آیت الکرسی پڑھ کر بیٹھا کہ خیر ہی ہو۔ابھی میں نے تین چار کلومیٹرسفر کا بمشکل طے کیاتھا کہ پتہ چلا کہ سڑک بلاک کرکے احتجاج ہورہاہے جس وجہ سے آگے نہیں جایا جا سکتا ۔معلوم کرنے پر پتہ چلاکہ قریبی گاؤں میں موجود فیکٹری کی وجہ سے بدبو،تعفن اور بیماریاں پھیل رہی ہیں جن کی وجہ سے اہلیان دیہہ کا نظام زندگی درہم برہم ہوچکاہے ۔بائیک سایڈ پر کھڑی کرکے قریب جاکے دیکھا تو کئی چہرے جانے پہچانے سے لگے ان چہروں پر ایک درد تھا، ایک تکلیف تھی۔ایک کوکھڑا کرکے پوچھا کہ بھئی عوام کو کیوں پریشان کررہے ہو جن کی فیکٹر ی ہے ان کے گھروں کے سامنے احتجاج کرو تاکہ انہیں پتہ چلے ۔ان کا جواب تھا۔جناب من ! ادھر احتجاج کرنے کون دے گا؟
اس طرح کے کئی واقعات گاہے بگاہے ہمارے معاشرے کا حصہ بنتے رہتے ہیں ۔عام طور پر اگر دیکھا جائے تو احتجاج کرنا عوام کا حق ہے اور اکثر وبیشتر عوام اپنے مسائل کی شنوائی نہ ہونے کی بناء پر کرتے ہیں ۔لیکن بعض اوقات جب اس میں سیاسی رنگ کی آمیزش ہوتی ہے تو پھر یہ دیکھنے لائق ہوتا ہے ۔مجھے آج تک احتجاج کی اقسام کی سمجھ نہیں آسکی ۔اگر احتجاج کی اقسام پرنظر ڈالی جائے تو سڑکوں پر ٹائر جلا کر سڑکیں بند کردینا احتجاج کی سب سے مقبول قسم ہے۔ پتلے نظر آتش کرنا، لانگ مارچ کرنا، ٹرین مارچ کرنا، دھرنا دینا ، بھوک ہڑتال کرنا، کاروائی کا بائیکاٹ کرنا، بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھنااحتجاج کے موثر ذرائع ہیں۔ سڑ کوں پر آکر ناچنا اور خواجہ سراؤں کی مدد لینااحتجاج کی جدید ترین اقسام ہیں۔ احتجاج کی خطر ناک حالتوں میں خود سوزی کرنا سر فہرست ہے۔احتجاج کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نظر آتش کرنا احتجاج کی ناجائز اورغیر مہذب قسم ہے۔ جائز احتجاج کسی بھی جمہوری طرز حکومت میں عوام کا بنیادی حق ہے۔ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے کیا جانیوالا احتجاج کسی طور بھی غیر مناسب نہیں۔ احتجاج کے بغیر حکومت وقت کان پرجو تک نہیں رینگتی اور دیکھنے میں آیا ہے کہ احتجاج کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔
کسی بھی زیادتی کی صورت میں شنوائی نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کرنا کسی قوم کے زند ہ ہونے کی علامت ہوتی ہے ۔پوری دنیا میں مظاہروں ،جلسے جلوسوں اور ریلیوں کی شکل میں احتجاج ریکارڈ کروائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی سرکاری وغیرسرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جاتااکادکا واقعات کو نکال کے ۔لیکن اگر بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں الٹی گنگابہتی ہے ۔یہاں کوئی بھی احتجاج تب تک کامیاب تصور نہیں کیا جاتا جب تک کسی سرکاری یا غیرسرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا ۔ اگر ہم سڑکیں بھی بلاک کرتے ہیں تو اس میں بھی عوام کا ہی نقصان ہوتا ہے کوئی اپنی نوکری پر جارہاہوتا ہے ،کوئی اپنی بیٹی یابہن کو اسکولوکالج میں چھوڑنے یا لینے جارہاہوتا ہے ،کوئی مریض کسی گاڑی میں مررہاہوتا ہے ۔نقصان کس کا ہوتا ہے ؟جس کو بتانے کے لئے ہم احتجاج کرتے ہیں وہ تو پروٹوکول کے دائر ے میں رہتے ہوئے اپنا راستہ بنواکر نکل جاتے ہیں اور ہم اپنی جیسی عوام کو مزید تکلیف میں مبتلاکردیتے ہیں ۔
احتجاج سے یقیناًہمارے مطالبات حکام بالا تک پہنچ جاتے ہیں مگرپر تشدد اور نفرت پیدا کرنے والے احتجاج سے گریز کرنا چاہیے۔ابھی تک پاکستان کی عوام کو یاد ہوگا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے طویل دھرنے نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی تھی ۔ بظاہر اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوا۔ لیکن دونوں جماعتوں کا دعوی ٰ ہے کہ انہوں نے عوام میں اپنے حق کے لیے لڑنے کیلئے شعور کو بیدار کردیا ہے۔اب قوم جاگ چکی ہے لیکن اس دوران پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی کی عمارت پر جس طرح دھاوا بولا گیا یہ کسی بھی مہذب ریاست کے افراد کو زیب نہیں دیتی تھی۔ اس قسم کے احتجاج سے معاشرے میں منفی قوتوں کو تقویت ملتی ہے اور دنیا میں مسلمانوں کا تشخص برباد ہوتاہے۔ ہڑتال کی صورت میں کیے جانے والے احتجاج میں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔سڑکوں کو بند کردینے سے مریض راستے میں دم توڑجاتے ہیں۔ پرتشدد انداز میں حکام بالا تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے احتجاج کی راہ اختیار کرنے والوں کو ان ماؤں کا خیال رکھنا چاہیے جن کی پکار ہے کہ
میرے شہر میں میری اولاد کو قتل کرنے والو
تمہیں کیا معلوم بیٹا کیسے جوان ہوتاہے !
ایسے احتجاج میں ناجانے کتنے سہاگ اجڑ جاتے ہیں اور ناجانے کتنی ماؤں کے لخت جگر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتے ہیں۔ زیر بحث موضوع کو ان الفاظ کے ساتھ سمیٹتے ہیں کہ حق کی جنگ نالڑنے والے اور ظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے والے ظالم کے ساتھی ہوا کرتے ہیں۔ بقول قتیل 
اس سا منافق دنیا میں نہیں قتیل 
جو ظلم تو سہتاہے مگر بغاوت نہیں کرتا 
دنیا میں اضطراب و بے چینی کی وجہ ظالم لوگ نہیں بلکہ حق پر چلنے والے لوگوں کی خاموشی ہے۔ اپنے حقوق کیلئے احتجاج یقیناًہونا چاہیے لیکن اس کی قیمت کسی معصوم اور بے گناہ شخص کو نہیں ادا کرنی چاہیے۔ حالات میں تبدیلی کیلئے احتجاج ضروری ہے اور یقیناًحالات بدل سکتے ہیں اگر احتجاج پر امن ہو۔جب ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہے ہوں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگ بھی ہم جیسے ہی مسائل سے دوچار ہیں اور حتی الامکان ان کو کم سے کم تکلیف میں مبتلاکرنا چاہیے ۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: اُدھر احتجاج کون کرنے دیگا ! Rating: 5 Reviewed By: Unknown