Tuesday, June 30, 2015

تحقیق کا فقدان اور وزیراطلاعات


دنیا کا ہرانسان کسی نہ کسی مذہب یا عقیدے کو مانتا ہے اور اس کے خلاف بات سننا گوارہ نہیں کرتا یہ ایک فطرتی بات ہے ۔ اس کے عقیدے سے جڑی ہر بات اس کے لئے مذہب کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔یہی بات اسلام کے ماننے والوں کی بھی ہے ۔اسلام جو ایک الہامی مذہب ہے اور اس کی تعلیمات ایسی ہیں کہ اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ۔ اس مذہب کی تعلیمات ہی ایسی پیاری اور لافانی ہیں کہ ساڑھے چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح یہ پہلے دن تھیں۔دنیا میں آج تک امن کے لئے جتنے بھی قوانین متعارف کروائے گئے ہیں ۔ ان سب کی تعلیمات ہمیں صرف ایک مذہب میں سے ہی مل جاتی ہیں جس کو دنیا اسلام کے نام سے جانتی ہے۔اسلام ہی وہ مذہب ہے جو خواتین کو حقوق فراہم کرتا ہے ۔ اسلام ہی ہے جس نے طلب علم مردوعورت دونوں پر نہ صرف فرض کیا ہے بلکہ اس کی عملی مثالیں بھی پیش کی ہیں ۔حضرت محمد کریم ﷺ پر پہلی وحی کا نزول اور اس میں پہلالفظ ’’اقرا‘‘ اس بات کو واضح کرتاہے کہ اسلام میں علم کی کتنی اہمیت ہے ۔ہجرت کے بعد پہلا کام مسجدقبا کی تعمیر اور پھر مسجد نبوی ﷺ میں الصفہ کا قیام اس بات کی غمازی ہے کہ اسلام میں تعلیم کی اہمیت ایک ستون کی طرح ہے پھر اسی مدرسہ کے طالب علم پوری دنیا میں علم کا چراغ روشن کرتے نظر آتے ہیں ۔آج جو سائنس ہم تک پہنچی ہے جس کی بدولت ہم چاند سے بھی آگے کمندیں ڈال رہے ہیں یہ سب اسی مدرسہ ’’الصفہ‘‘ کا فیض ہے ۔ ہم ہرروز ایک نئی ایجاد سے متعارف ہورہے ہیں ۔یہ سب اسلام کا ہی دیا ہواہے ۔چینی رہنماء ماؤزے تنگ نے جب قرآن کا مطالعہ کیا اور سورۃ الفیل پرپہنچاتو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور انہوں نے اسی سے سبق حاصل کرتے ہوئے چین کو یہاں تک لاکھڑا کیا کہ آج چین ایک ابھرتی ہوئی سپرپاور ہے ۔ 
یہ سب تمہیدی باتیں تھیں اب آتے ہیں وزیر اطلاعات پرویز رشید کے بیان کی طرف جو انہوں نے مساجدومدارس کے متعلق ایک تقریب میں دیا تھا اور حاضرین تقریب اس کے بعد تالیاں بجا رہے تھے ۔ میں اس چیز کو نہیں سمجھ پایا کہ حاضرین مسلمان تھے یا غیرمسلم ۔اگر مسلمان تھے تو کس بات پر تالیاں بجائی گئی تھیں کہ وزیر موصوف نے مساجد سے اللہ اکبر کی آواز جو دن میں 5مرتبہ بلند ہوتی ہے کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔جناب نے مدارس کو جہالت کی فیکٹریا ں قراردیا کہ جو پوری دنیا میں سب سے بڑی N.G.O ہیں ۔ پاکستان میں ہی کم وبیش 25لاکھ کے قریب بچے انہی مدارس میں پڑھتے ہیں ۔ جہاں ان کو قرآن وحدیث کے علاوہ دیگر علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ کون ساایسا ادارہ ہے جو بچوں کو 3ٹائم کا کھانا ،رہائش ،تعلیم اور صحت کے متعلق سہولیات بالکل مفت میں فراہم کرتا ہے وہ صرف اور صرف یہی مدارس ہیں جن کو وزیر اطلاعات نے جہالت کی یونیورسٹیاں کہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم مولویوں اور علماء کی کتابیں اور ان کی فکر نہیں اپناناچاہتے کیوں کہ یہ جہالت کی پیداوار اور مدارس میں پڑھایا جانے والا علم جہالت کا علم ہے ۔ پرویز رشید نے موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا جیسے عقائدپر قہقہ لگاتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا ۔ جناب موصوف اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اسلامی شعائر کو کھلے عام تنقید اور جہالت کا گڑھ بتاتے ہیں ان کو اتنا نہیں پتہ کہ یہ جن کی نقالی یہ کررہے ہیں وہ خود موت کے منظر اور اس کے بعد والے معاملات پر تحقیق کررہے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو سچ ماننے پر مجبور ہیں ۔مدارس میں کیا پڑھا یا جاتا ہے ذرا دیکھتے ہیں ۔میں یہاں صرف ایک آیت پیش کروں گا ۔مدارس میں دی جانے والی تعلیم ’’قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون‘‘ ’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں ‘ سورۃ الزمر آیت نمبر (۹) ۔مدارس کہ جن کو وزیر موصوف نے جہالت کا گڑھ بتایا ہے اس میں پڑھا یا کیا جاتا ہے یہ بھی دیکھ لیں علم التجوید،علم تفسیر،علم اصول تفسیر ،علم حدیث،علم اصول حدیث ،علم فقہ ،علم اصول فقہ،علم میراث ،علم عقائد،علم نحو،علم صرف،علم منطق ،علم فلسفہ ،علم بلاغت اور زمانہ کی ضرورت کے مطابق دیگر علوم جیسے کہ ریاضی ،انگلش وغیرہ۔یہ وہ خاص خاص علو م ہیں جو مدارس میں طالب علم کو پڑھائے جاتے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کے بعد مدارس کے طالب علم ان علوم میں ایک استاد کی سی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جس طرح عصری تعلیم حاصل کرنے کا مقصد اچھی نوکری وغیرہ ہوتا ہے اسی طرح مدارس کا بنیادی مقصد اسلام کی اشاعت وترویج ہے اور مدارس اس مقصد میں کامیاب بھی ہیں ۔ اگر مساجداور مدارس نہ ہوتے تو آج ہم نام کے بھی شاید مسلمان نہ ہوتے ۔اب بھی حال یہ ہے کہ مسجد کا مولوی ہمیں پیدائش کے وقت اذان دینے کے لئے اور مرنے کے بعد جنازہ کے لئے یا د آتا ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جس نے آج تک اپنے حقوق کے لئے کوئی ہڑتال کوئی احتجاج نہیں کیا اور وزیر موصوف تو سیاست کا حصہ ہیں جس میں آئے روز دھرنے ،مارپیٹ،کیچڑ اچھالنا،احتجاج ،بلیک میلنگ الغرض سب چلتا ہے ۔ تو کون جاہل ہے ؟
جناب آپ تقریرکرنے سے پہلے ذرا پاکستان کی تاریخ پرنظر ڈالتے تو آپ کو پتہ چل جاتا کہ آپ کس کو جاہل کہہ رہے ہیں جو سب سے زیادہ محب وطن ہے جس کا سب کچھ پاکستان میں ہے جس کی کمائی ،آمدن الغرض جائیدادیں سب پاکستانی ہیں ۔اورسیاست دان اور ’’علم ودانش‘‘ کی فیکٹریاں جن کے ٹوائلٹ کا ٹشوپیپر تک باہر سے آتا ہے اور جب بھی ملک پاکستان پر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو آپ جیسے کئی دانشور ملک سے فرار ہوکر عیش وعشرت میں ڈوب جاتے ہیں اور جیسے ہی حالات صحیح ہوئے پھر سے وطن کی یاد آگئی۔آپ ایک ذمہ دار وزارت پر ہیں آپ کو اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں اور اوپر سے آپ کی جماعت کا نام بھی مسلم لیگ ہے ۔آپ کے فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی جماعت کا نام مسلم کوتبدیل کرکے جہالت لیگ ہونا چاہیے۔
جہاں تک بات ہے دہشت گردی سے مدارس اوراسلام کو جوڑنے کی تو آپ بتاسکتے ہیں کہ صولت مرزاجیسے کئی لوگ کس مدرسے کے سند یافتہ تھے ۔جناب وہ آپ کے سسٹم کی پیداوار ہیں اور آپ کے اپنے ہی سیاست دان ان کی پشت پناہی کررہے ہیں تو کیا آپ سیاست پر پابندی لگاسکتے ہیں ؟یہ بات سچ ہے کہ ہرادارے میں اصطلاحات کی گنجائش ہوتی ہے ۔ہرادارے میں اچھے برے لوگ مل جاتے ہیں ۔اگر کوئی فوجی کچھ غلط کرتا ہے تو ساری فوج ہی غلط نہیں ہوسکتی ۔اسی طرح اگر کوئی سیاست دان کچھ برا کرتا ہے تو سارے ہی برے نہیں ۔جناب اصطلاحات کریں نہ کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کوبدنام کریں ۔ یہ ملک جتنا آپ کا ہے اتنا ہی ان مدارس میں پڑھنے والے اور پڑھانے والے لوگوں کا بھی ہے ۔ ان لوگوں نے اپنا کام بخوبی سرانجام دیا ہے جبکہ سیاست دانوں کا کام آپ کے سامنے ہی ہے ۔یہ ملک اسلام کے نام پربنا تھا اور اس میں اسلامی تعلیمات ہی اچھی لگتی ہیں جو سیکولر ذہنیت کے مالک ہیں ان کو جہاں سے اس کی تعلیم ملی ہے وہ ادھر جاکر عیش کریں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کا ہے ۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: تحقیق کا فقدان اور وزیراطلاعات Rating: 5 Reviewed By: Unknown