Sunday, November 6, 2016

تحریک آزادی کشمیر اور برہان وانی کی شہادت


جموں و کشمیر جس قدر حسین وجمیل ہے اسی قدر اس کی تاریخ دلخراش واقعات سے بھری پڑی ہے ۔سانحات ،خونچکاں حوادث ، جانکاہ المیوں اور قتل و غارت کی دلدوز آہوں ،چیخوں اور دل دہلادینے والی سسکیوں سے لبریز تاریخ جموں و کشمیر کی ہے ۔کشمیر جسے دنیا پر جنت سے تشبہیہ دی جاتی ہے ہندو بنئے کی چالاکی ومکاری اور انتہا پسندانہ عزائم سے اس کا حسن گہنا چکاہے ۔برہان وانی شہید ؒ کی شہادت سے جار
ی ہونے والی حالیہ تحریک ایک دم سے نہیں شروع ہوگئی ۔ اس کے پیچھے بے شمار قربانیاں ،دھوکہ دہی ،دجل وفریبجہان پاکستان اور عالمی طاقتوں کی روایتی بے حسی ہے ۔6نومبر 1947ء ایک ایسی ہی خونچکاں اوراق رکھنے والی تاریخ ہے جس دن بھارتی دجل وفریب نے دولاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہادت سے ہمکنار کردیا ۔’’بغل میں چھر ی منہ میں رام رام ‘‘ کی عملی تصویر بنے سیکولر بھارت کے حکمرانوں کے کشمیر پر ناجائز قبضہ مضبوط کرنے اور جموں و کشمیر سے مسلمانوں کا تناسب کم کرنے کی خاطر منظم نسل کشی کا ایجنڈا ہے جو تقسیم برصغیر سے ہی شروع ہوگیا تھا ۔جب پاکستان انتظامی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا تب سے بھارت کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر مظالم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے ۔
کشمیریوں نے نومبر 1947ء میں جب الحاق پاکستان کیلئے بھرپور جہدوجہد شروع کی تو ڈوگرہ حکومت گھبرا گئی اور اس نے جموں و کشمیر کے نہتے مسلمانوں کے خاتمے کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔ ریاست جموں و کشمیر کے کئی علاقے مسلمانوں کے خون سے رنگ گئے، مسلمان بچیوں اور عورتوں کو اغواء کیا گیا۔آل انڈیا کانگریس کے صدرآچاریہ کرپلانی کے حکم پر مسلمانوں کاقتل عام کیا ۔جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے قتل عام کے باوجودکشمیری نوجوانوں نے نہایت بہادری سے ہندوؤں اور ڈوگرہ فوجوں کا مقابلہ کیا۔ جب مکار ہندوؤں نے دیکھا کہ مسلمان کسی طور پر ان کے قابو میں نہیں آرہے تو انہوں نے اعلان کردیا کہ مسلمانوں کے پاکستان جانے کے انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں اس لئے تمام مسلمان پولیس لائن گراؤنڈ جموں میں پہنچ جائیں۔مسلمانوں کے اس وقت کے گورنر جموں سے مذاکرات میں یہ طے پایا کہ مسلمان پاکستان ہجرت کر جائیں اور جب جموں میں حالات ٹھیک ہو جائیں تو واپس جموں آجائیں۔ پاکستان کے عشق میں دیوانے لوگ اپنے آباؤاجداد کی وراثتوں کو خیر باد کہہ کر پولیس لائن جموں میں پہنچ گئے لیکن انہیں پاکستان بھیجنے کی بجائے حملہ آوروں کے ذریعے شہید کروادیا گیا۔5نومبر کو تقریباً 4 ہزار مسلمانوں کا ایک قافلہ پاکستان کیلئے روانہ ہوا مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کی بجائے کھٹوعہ روڈ پر لے جایا گیااور ماوا کے مقام پر مسلح افراد نے حملہ کرکے ان سب کو شہید کردیا۔ 6 نومبر 1947ء کو 70 ٹرکوں پر مشتمل مسلمانوں کا قافلہ پاکستان روانہ ہوا لیکن اس قافلے پر بھی حملہ ہوگیا اور ستواری کے مقام پر مسلح حملہ آوروں نے اس قافلے میں شامل مسلمانوں کو شہید کردیا۔ 7 نومبر کو ظلم کی انتہاء کی گئی، مسلمان بچیوں اور عورتوں کو اغواء کیا گیا ،ان کی آبروریزی کی گئی اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ 7 نومبر کو پاکستان کی جانب روانہ ہونیوالے کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اس سے نازیت کی روح بھی کانپ اٹھی ہوگی ۔جموں کے معززین کی کثیر تعداد اس قافلے میں تھی جس کی اکثریت شہید کردی گئی ۔یہ قتل وغارت اس قدر منظم طریقے سے ہوئی کہ سری نگر میں کسی کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ جموں کے دیہات میں جو ظلم و ستم ہوا وہ ہندوؤں کی بربریت کا زندہ ثبوت ہے۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر لیا گیا تھا اور دیہات کو نذر آتش کرنے کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ جموں ، اکھنور ، راجپورہ، چینی ، ریاستی ، کھٹوعہ ، سانبہ، اودھم پور، مسلمانوں کی متقل گاہیں بن گئیں تھیں۔ مواضعات، بیر نگر، سلنی ، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہو چکاتھا۔ اس کے رد عمل میں جموں و کشمیر کے لوگوں نے ہتھیار سنبھال لئے اور ڈوگرہ فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میدان کار زار میں نکل پڑے اور مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیاجو وقت کے نشیب وفراز کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے ۔ 20 اکتوبر 1947ء کو اکھنور کے مقام پر 14 ہزار مسلمانو ں کو شہید کردیا گیا لیکن جموں کشمیر کے مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری اور الحاق پاکستان کیلئے جہدوجہد جاری رکھی۔جان سٹیفن نے اس دوران جموں میں ہوئی قتل وغارت گر ی میں 5لاکھ ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے ۔معروف جریدے لندن ٹائمز نے دولاکھ بتیس ہزارکے قریب شہادتیں لکھی تھیں ۔
آج بھی آزاد ومقبوضہ جموں کشمیر اور پوری دنیا میں قیام پذیر کشمیری سانحہ 6نومبر 1947ء کی یاد میں ’’یوم شہدائے جموں و کشمیر‘‘ پوری عقیدت واحترام سے مناتے ہیں اور دنیا کو باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر ی شہید تو ہوسکتے ہیں لیکن الحاق پاکستان سے ذرہ برابر پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے مسلسل کرفیو کو 4ماہ ہوچکے ہیں ۔جس میں بھارت نے ظلم وستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ کشمیری ماؤں بہنوں کو سڑکو ں پر گھسیٹا گیا ،نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گن ، آنسوگیس،لاٹھی چارج اور سیدھے فائر کئے گئے ۔مسلسل کرفیو سے کھانے پینے کی اشیا ء ناپید ہوچکی ہیں ،ادویات کا سٹاک ختم ہوچکا ہے اور بھارت مسلسل اپنے انتہاپسندانہ عزائم کے تحت کشمیریوں پر جدید ترین اسلحہ آزما رہاہے ۔2010ء میں پیلٹ گن کا کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے استعمال کیا گیا ،عموماََپیلٹ گن کا استعمال جانوروں اور پرندوں کے شکار کے لئے کیا جاتا ہے ۔اس گن سے چھوٹے چھوٹے ایسے چھرے فائر ہوتے ہیں جو لوہے کی گیند کی مانند ہوتے ہیں ۔پچھلے دوماہ میں 30کے قریب سکولوں کو تباہ کردیا گیا ہے ۔8جولائی کو وانی کی شہادت کے بعد صرف دودن میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہونے والوں کی تعداد 44اور زخمیوں کی تعداد2000تھی ۔اب تک 120سے زائد ہلاکتیں،8ہزار سے زائد کو بھارتی فورسز نے گرفتار اورمحتاط ذرائع کے مطابق 13 سے 14ہزار کے قریب زخمی ہیں ۔ جن میں سے 2ہزار کے قریب وہ افراد ہیں جن کی آنکھوں کی بینائی بھارت نے چھین لی ہے ۔
اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا کشمیرکے حوالے سے ٹھوس موقف بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے ۔پاکستان کو اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور ماضی وحال کے بھارتی مظالم و مکاریاں دنیا کے سامنے لائی جائیں تاکہ دنیا کشمیر کے حوالے سے بھارت کو مجبور کرسکے کہ وہ جلد سے جلد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے۔بیانات سے آگے بڑھ کر ہمیں کشمیریوں کی مددکرنا ہوگی تاکہ کشمیریوں کو بھارتی ظلم وستم سے جلد ازجلد آزادی نصیب ہو ۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: تحریک آزادی کشمیر اور برہان وانی کی شہادت Rating: 5 Reviewed By: Unknown