Friday, February 6, 2015

فردوس بریں

مجھے وہ بہن نہیں بھول رہی کہ جس کے دوپٹے سے پکڑ کر ایک فوجی اسے کھینچ رہا ہے اور وہ اس سے بچنے کی کوشش کررہی ہے ۔ میرے ذہن میں یہ بات گھوم رہی تھی کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے لئے یہ کشمیری لوگ اپنا سب کچھ لٹا رہے ہیں اور قربانیوں پرقربانیا ں دے رہے ہیں لیکن اپنے مؤقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے ۔ میری معلومات کے مطابق کشمیر یوں کا مسئلہ تقریباََقیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا لیکن جب تاریخ کشمیر پر اس بار نظر دوڑائی تو مجھے ان کشمیریوں پر حیرت و فخر محسوس ہوا کہ یہ وہ قوم ہے جس نے تقریباََ ’’معاہدہ امرتسر ‘‘ (جو کہ انگریزوں اور گلاب سنگھ کے درمیان 16جولائی 1846ء کوہوا تھا جس میں انگریزوں نے کشمیر 75لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض گلاب سنگھ کو بیچ دیا تھا ) سے آزادی کی تحریک شروع کی ہے ۔ جولائی 1931ء میں سری نگر جیل میں وحشیانہ تشدد وفائرنگ کی وجہ 22مسلمان شہید اور تقریباََ 47شدید زخمی ہوگئے تھے اسی واقعہ پر آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں کشمیر کمیٹی قائم کی اور علامہ اقبال ؒ کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔1931ء ہی میں نومبر کے مہینے میں تحریک الاحرار نے غیر مسلح جدوجہد اور سول نافرمانی کے ذریعے جموں وکشمیر کو آزاد کروانے کا مطالبہ کیا ۔1934ء میں پہلی مرتبہ ہندوستان میں کشمیریوں کیساتھ اظہاریکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ 
سنہء1946ء میں ہمارے محترم قائد جناب محمد علی جناح ؒ نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سری نگر کا دورہ کیا جہاں پر قائد کی دوراندیش نگاہوں نے سیاسی ،دفاعی ،اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ مسلم کانفرنس نے کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19جولائی 1947ء کو سردار ابراہیم خان کے گھرباقاعدہ طور پر’’ قراردادالحاق‘‘ منظور کی ۔ لیکن جب کشمیریوں کی خواہشات اور فیصلے کو نظرانداز کر کے اس پر انڈیا کا غاصبانہ قبضہ کروایا گیا تو 23اگست 1947 ء کو نیلابٹ کے مقام سے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا ۔15ماہ کے مسلسل جہاد کے بعد موجودہ کشمیر کاحصہ آزاد ہوا جسے آج دنیا آزاد کشمیر کے نام سے جانتی ہے ۔ ہندو چانکیہ کے سردار پنڈت جواہر لعل نہرو بھاگا بھاگا اقوام متحدہ گیا اور وہاں وعدہ کیا کہ وہ ریاست کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کروائے گالیکن اپنے وعدے کو پورا کرنے کی بجائے ہندوبنیاء آج تک جموں و کشمیر سے مسلمانوں کا نام ونشان ختم کرنے پر تلا ہوا ہے ۔شیخ عبداللہ جیسے غداروں کا ساتھ ان کو ہمیشہ رہاہے ۔ذوالفقار بھٹو کی کال پر پورے پاکستان اور آزادومقبوضہ کشمیر میں بروز جمعۃالمبارک کو ایک زبردست اور تاریخی ہڑتال ہوئی اورل سری نگر کے لال چوک میں ایک مرتبہ پھر سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا۔ 
1981ء میں کشمیری جماعتوں نے بنام مسلم متحدہ محاذ کے انتخابات میں حصہ لیا اور کوشش کی کہ جیت کر جمہوری طریقے سے کشمیر کو انڈیا سے آزادی دلواتے ہیں پھر 23مارچ 1987ء کو دوبارہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن مسلم متحدہ محاذ کی واضح اور فیصلہ کن فتح کو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے شکست میں بدل کر ہندوستان نے کشمیری عوام کی پرامن تبدیلی لانے کی خواہش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا یہی وہ نقطہ آغاز تھا جس سے پھر قربانیوں اور شہادتوں کا سفر تیز سے تیز تر ہوگیا اوراسی سے آج انڈیا بری طرح پھنسا ہوا ہے اور سارا انڈیا لرز رہاہے ۔
یہ تو تھی وہ معلومات جو مجھے ابھی ابھی اس قوم کے متعلق حاصل ہوئیں کہ جو تقریباََ پچھلے 150سال کے عرصے سے بھی زیادہ غلامی میں رہتے ہوئے بھی آزادی کا وہ چراغ روشن کرکے بیٹھے ہیں کہ ان کی قربانیاں سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ اب ذرا آتے ہیں 5فروری کی جانب ۔ اس دن کو منانے کا آغاز باضابطہ طور پر 1990ء میں جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر جناب قاضی حسین احمد کی کال پر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب اور اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف نے کیا ۔ تب سے لے کر آج تک پورے پاکستان اور آزادومقبوضہ کشمیرمیں اوردنیا میں جہاں بھی کشمیری اور پاکستانی رہتے ہیں وہاں پر پورے زوروشور سے کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کے لئے ہڑتال اور سیمینار ز منعقد کئے جاتے ہیں ۔
بھارت نے اپنی ہندو خصلت کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ ہی پاکستان پر الزام لگایاہے کہ پاکستان کشمیریوں کو اس کے خلاف اکساتا ہے گو کہ کفار کے پیمانے ماپنے کے مختلف ہیں ان کا حال تو ہاتھی کے دانتوں والا ہے ۔پھر بھی اس بات کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہوجاتا ہے کہ جب وادی میں شرائن بورڈ کو 800کنال اراضی کی منتقلی کے گورنر کے فیصلے کے خلاف لاکھوں کشمیری سڑکوں پرنکل آئے اور کشمیر میں ایک طرح کا عوامی انقلاب آگیا۔ اس ردعمل پر بھارت نواز دانشور اور صحافی ششدر رہ گئے تھے اور عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے ،ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ویر سنگھوی ،ٹائمز آف انڈیا کے کنسلٹنٹ ایڈیٹر سوامی ناتھن اور کالم نگار جگ سوریا جیسی انڈین شخصیات کوبھی کشمیریوں کوآزادی دینے اور کشمیر سے خود کو آزاد کرنے کامطالبہ کرنا پڑا اور کشمیریوں کے سول انقلاب نے پاکستان پر الزام تراشی کا بھانڈہ بھی بیچ چوراہے پھوڑدیا۔ 
کشمیری صدیو ں سے غیرملکی تسلط اور قابض حکمرانوں کے مظالم کے شکار رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی آزادی کی شمع کوروشن رکھنے کی کوشش کی گو انہیں بہت سے شیخ عبداللہ جیسے غداروں کا بھی سامنا کرناپڑرہاہے لیکن تحریک آزادی کشمیر کسی نہ کسی صورت میں جاری وساری ہے اور اب تو اس تحریک میں عروج ہے ۔
آج کے دن میرا سوال آپ سب محب وطن پاکستانیوں سے یہ ہے کہ کیا کشمیر کو پاکستان کی ضرورت ہے یا پھر پاکستان کو کشمیر کی ۔ میرے مطابق اتنی کشمیر کو ہماری ضرورت نہیں جتنی ہمیں کشمیر کی ہے کیونکہ کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہماری شہ رگ اس وقت ہمارے دشمن کے ہاتھ میں ہے اور وہ وقتاََفوقتاََ اس کو دباتا بھی رہتا ہے جس کی درد ہمیں ہوتی ہے کوئی مانے یامانے ۔
احباب ارباب واختیار اور عوا م کو بھی چاہیئے کہ وہ ہرفورم اور ہرسطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑیں کیونکہ ہمارا کشمیر یوں سے ہرطرح سے رشتہ ہے اور سب سے بڑا رشتہ کلمہ کی بنیاد پر ہے اور ہمارا یہ اخلاقی اورجمہوری طور پر بھی فرض بنتا ہے کہ ہم کشمیریوں کو اخلاقی ،مالی اور ہر طرح سے مدد فراہم کریں اور عالمی وڈیروں پردباؤڈالیں کہ وہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق جلد سے جلد حل کروائیں اگر نہیں تو یاد رکھیں کہ کشمیری اپنا حق لینا اچھی طرح سے جانتے ہیں اور انڈیا میں امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کردیتا اورانڈین مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق کی فراہمی ممکن نہیں بناتا۔
ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب کشمیری آزاد فضاؤں میں سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے نعرہ لگائیں گے 
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ 


گرفردوس بہ روئے زمیں است ہمیں است ہمیں است وہمیں است


  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: فردوس بریں Rating: 5 Reviewed By: Unknown