Tuesday, October 4, 2016

اتحادواتفاق کی ضرورت

عالم اسلام میں ایک عجیب سی وحشت دوڑرہی ہے ۔ ہرطرف خوف ،دہشت گردی اور ہاہاکارکاعالم ہے ۔پاکستان میں جہاں اسلام کے نام لیواؤں پر نعرہ تکبیر کے ساتھ حملے ہوتے رہے ہیں وہیں شام میں بشارالاسد اور اس کی اتحادی افواج مسلمانوں پر ظلم وستم کا بازار کئے ہوئے ہیں ۔کشمیر وفلسطین کے مسلمانوں پر یہود وہنودعرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں ۔افغانستان وعراق میں کشت وخون کا بازار گرم ہوااور اس کے بعد اس کی راکھ میں سے داعش جیسی تنظیم کا وجود ہوا۔جس سے آج پوری دنیا لرزرہی ہے ۔داعش جیسی تنظیموں کے متعلقعالم اسلام کے تمام مکاتب فکرمتحد ہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو اسلامی تعلیمات کا کوئی پتاہے۔
اسلامی ممالک میں ہرروز دھماکے ہوتے ہیں اورقتل وغارت ہوتی ہے ۔اسلاموفوبیا جیسی اصطلاحات اسلام کوبدنام کرنے کے لئے میڈیا میں
عام ہیں ۔دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جسے میڈیا نے پروپیگنڈہ کرکرکے مسلمانوں کے لئے خاص کردیا ہے ۔آج اگر دنیا میں کہیں بھی دہشت گردانہ کاروائی ہوتی ہے تو میڈیائی وار کے تحت اکثریت کے ذہنوں میں دہشت گرد مسلمان ہی بیٹھ جاتے ہیں بلکہ کچھ تو اس کا اظہاربھی کردیتے ہیں کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی مسلمان ہی ہوگا۔کیااس لفظ کی بنیاد مسلمان بنے؟آئیے ذرا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔1790ء میں فرانسیسی انقلاب کے دوران 1793ء اور 94ء کو دہشت کے سال قراردیاگیایوں دنیا میں دہشت گردی کا لفظ پہلی بارمنظم طورپر استعمال کیا گیا ۔فرانسیسی انقلاب کے دوران 5لاکھ افراد کو گرفتار کیاگیا جن میں سے چالیس ہزار کو قتل کیاگیا اور دولاکھ کو بھوکا رکھ کر ماردیاگیا۔اس لئے ان سالوں کو دہشت کا سال کہا جاتا ہے۔1880ء میں سینٹ پیٹرز برگ میں دودھماکے ہوئے جن میں 22افراد ہلاک ہوئے ۔ ان دھماکوں میں ایک روسی ملوث تھا جو کہ مسلمان نہیں تھا۔1886ء میں مارکیٹ شکاگومیں ایک لیبر ریلی کے دوران دھماکہ ہواجس میں 12افرادہلاک ہوئے ،سات پولیس افسران زخمی ہوئے لیکن بعد میں ان کی اکثریت ہلاک ہوگئی ۔ اس کارواوئی کو سرانجام دینے والوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔6ستمبر 1901ء کوامریکی صدر ایک فرینک نامی شخص کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔ فرینک بھی مسلمان نہیں تھا۔ 1910ء میں لاس اینجلس کی ٹائمز اخبار کی عمارت میں دھماکہ ہوا جس میں 21کے قریب افراد ہلاک ہوئے جوکہ جوزف اور جیمز نامی دوافراد نے کئے جو کہ مسلمان نہیں تھے ۔16اپریل1925ء کو بلغاریہ کے مقام صوفیا کے ایک چرچ پرحملہ ہوا جس میں دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور پانچ سوسے زائد افراد زخمی ہوئے ۔ یہ دھماکہ بلغاریہ کی کیمونسٹ پارٹی کی طرف سے کیا گیاتھا اور وہ مسلمان نہیں تھے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد 1941ء سے لے کر 1948ء تک ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی طرف سے 260کے قریب دہشت گردانہ کاروائیاں کی گئیں وہ مسلمان نہیں تھے ۔یہودیوں کے بقول ہٹلر نے 60لاکھ سے زائد یہودیوں کو قتل کیا ۔ کیا ہٹلر مسلمان تھا ؟آج خود کش حملوں کا الزام مسلمانوں پر لگتا ہے لیکن اس کو عام کرنے والے مسلمان نہیں تھے اور جنہوں نے شروع کیا وہ بچوں کو اس کام کے لئے استعمال کرتے تھے۔1984ء میں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھارتی فورسز نے سکھوں کی مقدس ترین جگہ گولڈن ٹیمپل میں کاروائی کی اور کئی سکھ بھارتی فورسز نے ہلاک کئے اور کئی سوکو گرفتارکرکے عقوبت خانوں میں سزائیں دی گئیں جس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم قتل ہوئی ۔ ان دونوں کا روائیوں میں بھی مسلمان نہیں تھا ۔بھارتی حکومت کے مطابق اس کے 600اضلاع میں 150کے قریب ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو کہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں۔لیکن بھارتی میڈیا صرف اور صرف کشمیریوں اور پاکستانیوں کو دہشت گرد کہتاہے اور کشمیریوں کے حق رائے دہی کو دہشت گردی کے طور پر دنیا کے سامنے لاتا ہے ۔ دنیاکو کشمیرمیں ہونے والے مظالم سے بے خبر رکھنے کے لئے اس قدر پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ دنیا مکار ہندوبنئے کی مکاری میں آجاتی ہے ۔
مندرجہ بالا واقعات میں کہیں بھی کوئی مسلمان نہیں ہے ۔دین اسلام میں جس طرح سے امن کی تعلیمات کا ذکر ہے دنیا کے کسی بھی مذہب میں اس کا عشرعشیر نہیں ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قتل ناحق کے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ۔ احادیث نبویہ ﷺ میں رحم اور انسانیت کے احترام کے متعلق بکثرت اقوال نبویﷺ موجود ہیں جس کی مثال ہے نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پررحم نہیں کیاجائے گا ۔ایک ایسا مذہب جس کانام ہی سلامتی ہواس میں قتل وغارت کہاں سے جائز ہوسکتی ہے ۔اگر ایک ملک اپنے کسی شہری کو امن کوفساد میں بدلنے کے الزام میں سزادے تو ناصرف جائز ہے بلکہ اس کی حمایت بھی کی جاتی ہے ۔پاکستان ایک لمبے عرصے سے دہشت گردی کا شکار رہاہے ۔ ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی چیرہ دستیوں اور اسلام کالبادہ اوڑھے کچھ ایجنٹس نے پاکستانیو ں کاجینا حرام کیاہواتھا لیکن ضرب عضب کی بدولت ان کے تمام منصوبے خاک میں ملادئیے گئے ہیں۔اس وقت عالم اسلام میں جس طرح کی قوتیں سازشیں کررہی ہیں اس کے لئے عالم اسلام کو اتحاد واتفاق کی ضرورت ہے ۔اقوام متحدہ جیسے ادارے عالم اسلام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اس لئے عالم اسلام کو مخلصانہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنے مسائل کو خود حل کریں ۔سعودی عرب نے جو عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوششیں کی ہیں وہ قابل ستائش ہیں ۔ عالم اسلام کو اس وقت ایک مقتدر ومدبر رہنما کی ضرورت ہے جو عالم اسلام کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکے ۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: اتحادواتفاق کی ضرورت Rating: 5 Reviewed By: Unknown