Tuesday, October 4, 2016

ہندوؤں کی اتھر وید میں "نراشنس " کا تذکرہ

رسول کریم ﷺ کی عزت،عظمت وعفت اور حرمت اہل ایمان کا جزولاینفک ہے اور حب رسول ﷺایمانیات میں سے ہے۔آپ ﷺ کی شان پرحملہ اسلام پر حملہ ہے ۔عصر حاضر میں گاہے بگاہے دشمنان اسلام محمدکریمﷺ اور اسلام کی پاک ومطہر ہستیوں کے متعلق گستاخیاں ودشنام طرازیاں کرتے رہتے ہیں ۔ بھارت میں ایک ہندو انتہاپسند مہاسبھا کے قائم مقام صدرکملیش تیواڑی نے اترپردیش میں رسول اکرم ﷺ کی شان اطہرمیں تحریر ی طور پرگستاخانہ بیان جاری کیا جس میں اس نے نبی کریم ﷺ ،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضہ اللہ عنہا اورجانثار صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کی۔بھارت اس وقت بدترین ہندوانتہاپسندی کے دور میں سے گذررہاہے۔کملیش تیواڑی کا تعلق بھی ایسی ہی انتہاپسند سوچ سے ہے ۔انتہا پسند ہندوؤں کو اپنی ہندوتعلیمات کے متعلق بھی مکمل علم نہیں ہے ۔زیرنظرتحریر میں میں کملیش تیواڑی جیسے گستاخ اور کم علم ہندوؤں کو انہی کی کتاب سے کچھ حوالہ جات دینے کی کوشش کی ہے تاکہ ہندو طبقہ سمجھ سکے کہ ان کی اپنی کتابیں محمد عربی ﷺ کے متعلق کیا کہتی ہیں ۔
پیشن گوئیوں کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کا تعلق جس شخصیت سے ہوتا ہے ،اس کا نام لیاجائے نہ لیاجائے لیکن اس کی ایسی علامتیں اور خصوصیات بیان کی جاتی ہیں اور اس کے گردوپیش کا ایسا نقشہ کھینچ دیاجاتاہے کہ جب وہ منظرعام پر آئے تو پہچاننے میں کوئی شک وشبہ نہ رہے ۔محمد کریم ﷺ کے متعلق ہندوکتابوں میں جو پیشن گوئیاں موجود ہیں ان میں آپ کا نام بھی اور صفات وخصوصیات اس قدربیان کردی گئیں ہیں کہ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو ان پیشن گوئیوں پر ہم پورے یقین سے ہندوؤں کو دکھاسکتے ہیں ۔اب آیئے ہندودھر م کی اولین کتاب وید کی طرف جو بالترتیب یہ ہیں ۔وید کی 4اقسام ہیں جودرج ذیل ہیں ۔(1) رگ وید ،(2) یجروید،(3) سام وید، (4)اتھر وید ۔ ان ویدوں کا انداز یہ ہے کہ وہ کسی مقدس شخصیت(عموماََدیوتااور کبھی کبھی انسان) کو منتخب کرکے اسے ایک یا چند ایک بار مخاطب یاذکر کرتی ہے ،اس کے اوصاف اور خوبیاں بیان کرتی ہے اور کبھی کبھی مصائب ومشکلات کے دفعیہ کے لئے اسے پکارتی ہے ۔ایک ایسا لفظ جواک شخصیت کے متعلق چاروں ویدوں میں اور بالخصوص اتھر وید میں سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے وہ ہے ’’نراشنس‘‘(نراشنس سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو درحقیقت دولفظوں سے مل کر بناہے ۔ایک لفظ ’نر‘جس کامعنی انسان ۔ دوسرا لفظ ’اشنس ‘جس کا مطلب ہے جس کی کثرت سے تعریف کی جائے ۔دونوں کو ملا کر پڑھیں تو کیا مطلب بنتاہے ؟او رمحمد ﷺکا کیا مطلب بنتاہے ؟۔اسی اتھر وید میں 14منتر ہیں جو کانڈ 20،سوکت 127،منتر 1تا 14پر مشتمل ہیں آئیے ان میں سے صرف 3منتروں کو دیکھتے ہیں ۔ایک منتر کے بعد اس کا مطلب واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔
1۔ لوگو! احترام سے سنو ! نراشنس کی تعریف کی جائے گی ۔ہم اس مہاجر ۔۔۔ یاامن کے علمبردار کوساٹھ ہزار نوے دشمنوں کے درمیان محفوظ رکھیں گے۔’’تشریح ‘‘احترام سے سننے کی جوتاکید یہاں ہے وہ ویدوں میں کم ہی پائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ شخصیت نرالی اور عظیم ہے ۔نراشنس کا مطلب آپ پہلے ہی جان چکے ہیں یعنی ’محمد ‘(ﷺ)۔اس منتر کے دوسرے مصرع میں مہاجر اور امن کے علمبردار کالفظ استعمال ہواہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ محمد کریم ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی جوانبیاء کرام کی تاریخ کا سب سے مشہور واقعہ ہے۔اوس وخزرج کے درمیان سوسال سے رہ رہ کر جاری جنگ محمد عربی ﷺ(نراشنس ) کی بدولت ہی ختم ہوئی تھی اور ان میں بھائی چارے کی فضاء قائم ہوئی تھی ۔جو صرف اورصرف امن کا علمبردار ہی کرسکتا ہے۔آخری مصرع میں دشمنوں کی تعداد کا ذکر ہے ۔محمد کریم ﷺ کے اس وقت کے دشمنوں کی تعداد کااندازہ لگائیں تو وہ اس تعداد کے عین مطابق ہے ۔
2۔ اس کی سواری اونٹ ہوگا اور اس کی بارہ بیویاں ہوں گی ۔ اس کا درجہ اتنا بلند اور سواری اتنی تیز ہوگی کہ وہ آسمان کو چھوئے گی ،پھر اتر آئے گی ۔’’ تشریح ‘‘ آپ ﷺ کی سواری اونٹ تھا اور آپ کی بیویوں کی تعداد بھی بارہ ہی تھی اور دوسرے مصرع میں آسما ن پرجانے اور آنے کا ذکر موجود ہے تو معراج کا واقعہ اس پر کتنا پورا آتا ہے اور وہ سواری براق تھی ۔ذرا قرآن مجید کا پندرواں پارہ شروع سے ترجمہ کے ساتھ پڑھ کے دیکھیں ۔
3۔ وہ دنیا کا سردار جو دیوتا ہے ، سب سے افضل انسان ہے ۔سارے لوگوں کا رہنما اور سب قوموں میں معروف ہے ۔ اس کی اعلیٰ ترین تعریف وثنا ء گاؤ۔’’تشریح ‘‘اس منتر میں نبی کریم ﷺ کی کئی صفات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔حدیث میں آپ کو سید ولد آدم یعنی آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار کہاگیاہے ۔آپ کو دیوتا اور سب سے افضل انسان کہاگیاہے ۔اور واقعی آپ اس قدر پاکیزہ اخلاق وکردار کے مالک تھے کہ بدترین دشمن بھی آپ کوصاد ق اور امین جیسے القابات سے یادکرتے تھے ۔سارے لوگوں کا رہنما سے مراد آپ ﷺ ہی ہیں کیونکہ انبیاء ورسل خاص قوموں کی طرف اللہ نے بھیجے جبکہ آپ کو تمام اولاد آدم کی طرف بھیجا گیا۔آپ کو تمام قوموں میں معروف بتایا گیا سے مراد یہ ہوسکتاہے کہ آپ کے متعلق پیشن گوئیاں ہر مذہب میں ہونگی ۔یہ بات صرف اور صرف محمد کریم ﷺ پرپوری اترتی ہے ۔آخری بات اس کی بہترین تعریف گاؤ ۔لفظاََ حکم ہے لیکن حقیقتاََ خبر ہے ۔محمد کریم ﷺ کی ایسی مدح وثنا ء کی گئی ہے مسلم قوم کے علاوہ دوسری قوموں نے اپنے انبیاء کی بھی اس قدر مدح وثناء نہیں کی ۔پھر اس کو گانے کا حکم ہے تو میرے خیال سے حسا ن بن ثابت رضی اللہ عنہ کی آپ ﷺکی مدح کرنا اور تب سے لے آج تک آپﷺ کی شان میں نعتیں لکھنا اور پڑھنا سعادت سمجھا جاتا ہے اوراس پر آپ کو مسلم وغیر مسلم شاعروں کے دیوانو ں پر دیوان مل سکتے ہیں ۔
مندرجہ بالا منتر صرف چند نمونے کے طور پر لایا ہوں تاکہ ہندوؤں کو ان کی کتابوں میں سے ایک ایسی شخصیت دکھلا سکوں جو ان سے ان کے پنڈتوں نے اب تک چھپائی ہوئی ہے ۔کملیش تیواڑی جیسے بدبخت مکرم ومحترم محمد کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے اپنے مذہب کی بھی گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔محمد کریم ﷺ کی شان تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کے متعلق کہاہے کہ ’’ ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا ہے ‘‘ ۔تو جس کے ذکر کو اللہ تعالیٰ بلند کردے تیواڑی جیسے لوگ ابولہب کا کردار اداکرکے دنیا وآخرت میں اپنی بربادی کا سامان پیداکرتے رہیں گے ۔کملیش تیواڑی کے اس گستاخانہ اقدام پر عالم اسلا م سراپا احتجاج ہے ۔بھارت کے مسلمان اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اس وقت سراپا احتجاج ہیں ۔غم وغصے اور ایمانی جذبے سے بھرپور مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ تیواڑی کو پھانسی دی جائے ۔اترپردیش کی حکومت نے تیواڑی ملعون کو اس کی درخواست پر حفاظت میں لے لیا ہے لیکن اس کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی۔کیونکہ اس وقت جس ہندو کی بھارت میں حکومت ہے وہ’’ گجرات کے قصائی‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔وہ بھارت صرف ہندوؤں کا نعرہ لگاچکاہے اور مسلمانوں پربھارت کو جہنم زار بناچکاہے ۔کملیش تیواڑی نے تحریر ی طور پر محمدکریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے جبکہ مسلمان محمد کریم ﷺ سے منسوب کسی چیز کے متعلق نازیبا الفاظ سننا گوارا نہیں کرتا کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔علما ء کرام اور دین دار طبقہ اپنے طور پر علمی وعملی سعی میں مصروف ہے لیکن دوسرا طبقہ جس میں ہمارے سیاسی رہنما اور میڈیا سر فہرست اس معاملے میں جان بوجھ کر چشم پوشی کررہا ہے ۔انہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ عز ت دینے والا بھی اللہ ہے اور ذلت دینے والا بھی اللہ ہی ہے ۔نبی ﷺ سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اگر یہ معاملہ نہ رکا تو عالم کفر یادرکھے مسلمان غلامی قبول کرسکتا ہے ،ذلت سہہ سکتاہے لیکن نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کو قبول کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ۔اور ہندومذہب کے پیروکاروں کو میں دعوت دیتاہوں کہ وہ اپنی کتب میں تحقیق کریں اور سمجھیں ۔سعودی عرب کے اردومیگزین "روشنی" میں شائع ہونے والی تحریر
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: ہندوؤں کی اتھر وید میں "نراشنس " کا تذکرہ Rating: 5 Reviewed By: Unknown