Monday, October 24, 2016

بھارت اندرونی تقسیم کا شکار


کشمیریوں پربھارت میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔تاریخ کے بدترین کرفیو میں زخمیوں میں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے تووہیں بھارت کے اندر سے بھی آزادی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔سکھ خالصتان کے لئے اپنی کوششیں تیز کررہے ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں شدت پسند ہندوؤں کی وجہ سے اضطراب پایا جارہا ہے ۔جہاں بھارت میں مسلمانوں کو گائے کے گوشت کے شبہ میں ہلاک کیا جارہا ہے وہیں نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف بھی انتہاپسند ہندو اپنے شدت پسندانہ عزائم کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاست دانوں نے ریاستی اسمبلی میں مسلمان رکن کو گائے کاگوشت کھانے کے شبہ میں تھپڑوں سے لال کردیاتھا۔صورت حال یہ ہے کہ شمالی بھارت میں گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں قتل ہوئے میاں بیوی کے الزام میں بھارتی پولیس نے 21افراد کو حراست میں لیا تھاجن کے متعلق بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سنگیت سوم نے معصوم کالفظ کہاتھا ۔بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی ایک طرف تو پاکستان کے ساتھ جنگ کی باتیں کرتے ہیں اور مبینہ سرجیکل سٹرائیک کاڈرامہ کرکے دنیا پر اپنی فوج کی دھاک بٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف بھارت میں انتہا پسندوں نے مسلمانوں ،عیسائیوں ،سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کا جینادوبھر کیا ہوا ہے ۔بھارت میں جہاں مسلمانو ں ،سکھو ں اور عیسائیوں کو زبردستی ’’گھر واپسی ‘‘ کے ذریعے ہندوبنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے وہیں دلت (ہندووں کی ذات کا نام)ہندومذہب سے بیزارہوکر دیگر مذاہب کی طرف جارہے ہیں ۔
25ستمبرکوگجرات کے بنا س کانٹھا ضلع کے ایک گاوءں میں ایک دلت حاملہ خاتون سمیت اس کے رشتہ داروں کی اس وقت زبردست پٹائی کی گئی ، جب انہوں نے ایک مردہ گائے کی لاش کو دورپھینکنے سے انکار کر دیا۔نلیش رنواسیا نامی شخص کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق دربار کمیونٹی کے تقریبا 10 لوگوں نے گزشتہ رات اس کی حاملہ بیوی سنگیتا سمیت اس کے پورے کنبہ کو گائے کی لاش نہ پھینکنے پرزدوکوب کیاجس سے اس کی حاملہ بیوی سمیت 6افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں ۔بھارتی صحافی کے مطابق مغربی ریاست گجرات کے بعض شہروں اور دیہات میں پچھلے چند ماہ کے دوران ہندودلتوں پر ہونے والے مظالم وتشدد کے خلاف غم وغصہ کی فضاء پائی جاتی ہے ۔9اکتوبر کواحمد آباد،کلول اورسریندرنگر میں ہونے والے بدھ پرورتن(بدھ مت قبول کرنے والوں کی تقریب) اجتماعات میں رپورٹس کے مطابق دوہزار دلتوں کو بد ھ مت میں داخل کیا گیا ہے ۔بدھ مت کا مذہب اختیار کرنے والے ایم بی اے کے طالب علم نے بتایا کہ اونا سانحے کے بعد میں نے طے کرلیا تھا اب میں ہندومذہب میں نہیں رہ سکتا ۔ایک ضلع سے اوناسانحہ کے بعد15ہزار سے زائد ہندودلتوں نے مذہب تبدیل کرنے کی بھارتی سرکار کودھمکی دی تھی ۔چند ماہ قبل گجرات میں ویراول کے گاؤں اونا میں جانوروں کی کھال اتارنے پر بھارتی پولیس کی موجودگی میں دلت نوجوانو ں کو بری طر ح ماراپیٹا گیا تھا جس کے بعد سے دلتوں میں احساس کمتری شدید سے شدیدتر
ہورہا ہے ۔دلتوں کے رہنمابابا امبیڈکرنے 14اکتوبر 1956ء کو اپنے چھ لاکھ حامیوں کے ساتھ دلت سے بدھ مت مذہب قبول کیا تھا ۔ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد اسلام کی طرف بھی آرہی ہے ،بھارت میں سب سے زیادہ نوجوان نسل مسلمانو ں کی ہے یعنی 47%کے قریب جبکہ ہندو کی 40%کے قریب ہے۔ستمبر2015ء میں شائع ہونے والی غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 1950 میں بھارت نے ہندو ذات پات کوقانوناََ ختم کردیا تھا لیکن اس کے باوجود صدیوں پرانی تفریق اور تعصب بھارتی معاشرے میں موجود ہے، بھارت کی آبادی میں 84% ہندو ہیں اور اب بھی برہمن، کیشتریا، ویشیا اور شودر/دلت جیسے طبقات میں تقسیم ہیں جب کہ دلت (نچلی ذات) کچرا اْٹھانے اور صفائی وغیرہ کے کام کررہے ہیں ۔ اونچی ذات کی خدمت کرنے کے باوجود ان کا استحصال کیاجاتا ہے اور ان پر ظلم وستم روا رکھا جاتا ہے جسکی وجہ سے ان کی بڑی تعداد اسلام،سکھ ،بدھ مت اور عیسائیت کی جانب مائل ہورہی ہے۔نومسلم بھارتی دھوبی نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے سے خاندانی عداوت اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ایک اورنومسلم عبدالرحمن نے کہا کہ دلت سے مسلمان ہونے کے بعد ان کے پرانے مذہب کے افراد نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں ان کے پیر اور سینے پر گولیاں ماری گئیں۔ رپورٹ کے مطابق دلت افراد کی عام شکایت یہ ہے کہ ملازمتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور وہ صرف غلاظت اٹھانے اور لاشوں وغیرہ کو ٹھکانے لگانے کا کام کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق بھارت کے دیگر علاقوں کے دلت افراد بدھ ازم سمیت دیگر مذاہب اختیار کررہے ہیں جب کہ مدھیہ پردیش میں دلت افراد کی سب سے زیادہ تعداد اسلام قبول کررہی ہے۔(ذات پات کے نظام پر مسلمانوں کو بھی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ،اسلام میں ذات پات کا کوئی نظام نہیں ہے لیکن ہندوؤں کے زیراثر پاکستان میں ذات پات کا نظام موجود ہے لیکن اس کا تقابل ہم بھارت کے ساتھ نہیں کرسکتے )
مسلم دشمنی میں مشہورکٹر ہندوتنظیم وشواہندوپریشد کے رہنماپروین توگڑیا نے گجرات میں ایک خطاب میں کہا تھا ملک میں ہندومت کی بقا کے لئے’’ گھر واپسی مہم‘‘ کے تحت پچھلے دس سالوں میں 5لاکھ عیسائیوں اورڈھائی لاکھ مسلمانوں کو ہندوبنا یاگیا ۔ہرسال 15ہزار کم ازکم افراد کو ہندوبنایاگیا ہے ۔ اسی موقع پر پروین توگڑیا نے پاکستان پر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے جہاں پاکستان میں اقلیتیوں پر نام نہاد مظالم کا پروپیگنڈہ کیا وہیں پاکستانی ہندوؤں کو بھارت میں آنے کی دعوت دی اور انہیں شہریت دینے کا بھی مطالبہ کیا ۔یورپ کو اگر اسلاموفوبیا کا مرض لاحق ہے تو ماضی میں ’’لوجہاد‘‘ کے نام سے بھارت میں اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔’’لوجہاد‘‘ کی اصطلاح 2009ء میں اْس وقت سامنے آئی تھی، جب ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست کرناٹک میں تقریباً تیس ہزار خواتین کو مسلمان بنا لیا گیا ہے۔اس وقت بھارت میں عملاََ انتہاپسند ہندوؤں کی حکومت ہے اورکشمیر سمیت بھارت میں ظلم وستم پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی بڑی معنی خیز لگتی ہے ۔بلوچستان میں چند زرخرید لوگوں کو ساتھ ملا کر بھارت سمجھتا تھا کہ بلوچستان کو الگ کروالے گا ، اس پر عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔کشمیر میں 10 سال کے بچوں تک کو معاف نہیں کیا جارہا ،اس وقت کشمیر کا بچہ بچہ آزادی مانگ رہا ہے ۔خالصتان والے اپنی غلطیوں کاازالہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ایسے وقت میں اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کی تنظیمیں اور موم بتی مافیا بھنگ پی کے سورہا ہے ؟اگر بھارت پاکستان سے ٹکر لے رہا ہے تواس کو خیال کرنا چاہئے کہ اس کے اندر سے ایسی کئی تنظیمیں نکل چکی ہیں جو بھارت کو اپنی مدد آپ کے تحت ریاستوں میں بدلنا چاہتی ہیں ۔تحریک خالصتان کے رہنما امرجیت سنگھ اس معاملے میں پاکستان سے صرف سفارتی مددگارکے طلبگا رہیں ۔جس کا وہ باضابطہ طور پر ایک انٹرویو میں اظہار بھی کرچکے ہیں ۔بھارت اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے جس کی وجہ وہاں انتہاپسندانہ سوچ،رسم ورواج ،اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم اورہندومذہب کی ایک ایسی دیوار ہے جو آج کے جدید دور میں بھی سیکولرریاست بھارت میں جوں کی توں کھڑی ہے۔1947ء سے 2016ء تک پاکستان قائم رہا ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا اس لئے پاکستان سے جنگ کا معاملہ فی الوقت بھارت کو موخر کرکے اندر کی طرف توجہ دینی ہوگی یہ نہ ہوکہ ادھر پاکستان سے بھارت جنگ کرے اُدھر بھارت میں خانہ جنگی لگ جائے ۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: بھارت اندرونی تقسیم کا شکار Rating: 5 Reviewed By: Unknown