Tuesday, October 4, 2016

اسلام پسند ترکی اور باغی گروہ

عالم اسلام میں اس وقت سعودی عرب ،پاکستان اور ترکی ایسے ملک ہیں جو عالم اسلام کو متحد کرنے میں بنیادی کرداراداکررہے ہیں ۔ یہی وہ ملک ہیں جو اندرونی و بیرونی مسائل سے مقدوربھر کوشش نمٹ رہے ہیں اور اس میں یقیناًیہ کامیا ب بھی ہیں ۔ سعودی عرب میں مد ینہ منورہ،جدہ اورقطیف میں ہونے والے خودکش حملے ہوں یا پھر ترکی میں ایئر پورٹ پر ہونے والاحملہ یاپھر پاکستان میں آرمی پبلک سکول میں طلبا کا قتل عام ، ان سے جس طرح ان ملکوں نے نمٹا ہے یہ قابل تشائش ہے ۔15جولائی کو ترکی کی اسلام پسندمنتخب جمہوری حکومت کو ایک سازش کے تحت جس طرح سے اتارنے کی کوشش کی گئی وہ قابل مذمت ہے ۔صدرترکی رجب طیب اردگان اور ان کی ٹیم سے اقتدار چھیننے کی اس سازش میں ترکی فوج کے ایک دھڑے کی طرف سے بغاوت کی گئی ۔باغی دھڑے نے ٹینکوں ،ہیلی کاپٹروں اور دیگر اسلحہ سے اپنے ہی ملک میں یلغارکردی اور جمہوریت کو بچانے کی خاطر جمہوری حکومت کو اقتدار سے محروم کرنا چاہا ۔ ترکی کی عوام نے صدر رجب اردگان کی کال پر سڑکو ں پر نکل کر صحیح معنوں میں اسلام پسند ہونے کا ثبوت دے دیا اور دیگر رہنماؤں کو بتا دیا کہ اگر رہنما عوام کے دکھ درد سمجھتا ہو تو اس کو بچانے کی خاطر ملک کی عوام ٹینکوں کے نیچے لیٹنا بھی جانتے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر ایک ترک کو ٹینک کے آگے لیٹے ہوئے دیکھ کر 1965ء میں پاک بھارت جنگ میں چونڈہ کے محاذ پرانسانوں اور بھارتی ٹینکوں کا مقابلہ یادآگیا جس میں پاکستان نے ٹینکوں کے سمندر میں سردھڑ کی بازی لگاکر ٹینکوں کاکباڑہ کرکردیا تھا ۔ ترک میڈیا کے مطابق باغی فوجی گروپ کی جانب سے گن شپ ہیلی کاپٹرزکی مدد سے پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوان صدر و وزیراعظم سمیت پولیس ہیڈ کوارٹر پر فائرنگ اور بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں 104 پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 265 افراد ہلاک اور 1500 زائد زخمی ہوئے، 2839فوجیوں نے بغاوت کی ۔ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے بغاوت کرنے والے فوجیوں کو عبرتناک سزا دینے کا کہاہے اور ساتھ ساتھ ان دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں ترکی کا ساتھ دیا ۔بغاوت کی ناکامی کے بعد مغوی آرمی چیف کو ملٹری ایئربیس سے بازیاب کرالیا گیا جب کہ5 جنرلز اور 29 کرنلز کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ترک صدررجب طیب اردوان نے ملک میں ہونے والی فوجی گروپ کی بغاوت کا الزام خدمت تحریک کے بانی اور جلاوطن رہنما فتح اللہ گولن پرعائد کیا ہے مگر فتح اللہ گولن نے اس الزام کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوئی سازش نہیں کی ہے۔ترکی جو سیکولرریاست سے تبدیلی کی جانب گامزن ہے اور اپنے آپ کو اسلام پسند ریاست کے طور پرمنوارہاہے ۔ پچھلے دنوں فریڈم فلوٹیلا 2کے ذریعے غزہ تک امداد پہنچانا یقیناًاسرائیل اور اس کے گماشتوں کے لئے ایک دھچکا ہے ۔ جس سے جہاں اسرائیل کی دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی وہیں اہل فلسطین کو احساس ہوا کہ ہم اکیلے نہیں ہیں ۔کسی مقبوضہ علاقے میں کسی کو احساس ہوجائے کہ وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ آزادی کے اس پار رہنے والے اس کے اپنے لوگ اس کی مددکی کوششوں میں مصروف ہیں تو اس کی آزادی کی تگ و دوتیز سے تیز تر ہوجاتی ہے ۔میرے خیال سے اہل ترکی کو فلسطینیوں کی امداد کی سزا دینے کی خاطر یہ اقدام اٹھایا گیا تھا جسے ترکی عوام،فوج اور رہنماؤں نے مل کر ناکام بنا دیا ہے ۔یقیناًاسکی دوڑ کہیں ’’اور‘‘ سے ہل رہی ہوگی اور سازشی ذہن نے فوج میں سے ایسے ذہن چنے ہونگے جو سیکولر ذہنیت کے مالک ہونگے اور اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہو سکاہوگا ۔بہرحال یہ تو تحقیقاتی ادارے بتائیں گے کہ اس باغیانہ سوچ کے پیچھے کو ن سے عوامل کارفرماتھے ۔
عالم اسلام جہاں اتحاد کی طرف تیزی سے گامزن ہے وہیں اسلام دشمن قوتیں اتحاد عالم اسلامی کو ناکام بنانے اور عالم اسلام کے گنے چنے ممالک کو بھی خانہ جنگی میں لپیٹنا چاہتے ہیں ۔اس وقت ان کی پالیسی کسی ملک پر قبضہ کرنے کی نہیں بلکہ وہاں اس قدر بدامنی پھیلانے کی ہے اسے اپنے گھر کی پڑی رہے ۔ سعودی عرب نے جب عالم اسلام کے حالات دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ اگر ہم دنیا میں امن وسکون سے رہنا چاہتے ہیں تو عالم اسلام کو متحد ہوکر اپنے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنا ہوگا تو سعودی عرب کو اندرونی وبیرونی مسائل میں اس طرح سے الجھانے کی کوشش کی کہ وہ اتحاد عالم اسلامی کو بھول ہی جائے ۔پاکستان اور ترکی نے جب اس طرف امید افزا ء نظروں سے دیکھا تو ان کا بھی یہی حال ہوا ۔ دہشت گردی یقیناًایک عالم گیر عفریت ہے لیکن اس سے نمٹنا صرف گولی ہی حل نہیں ہے ۔ دہشت گرد بنانے کے عوامل پربھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔داعش ،تحریک طالبان پاکستان اور حوثی قبائل جیسے لوگوں کے آگے جہاں فوج کی مدد سے بند باندھاجاسکتاہے وہیں اس کے نظریات سے عوام الناس کو بچانے اور اسلام کی سچی اور کھری تعلیمات کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے ہمیں ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے سکالرز کی شدید ضرورت ہے جو تقابل ادیان میں مہارت رکھتے ہوں ۔ لیکن کیا کیجئے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر بھی پابندی لگانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ میرے جیسے کم علم لوگ جو کسی بھی فورم پر اسلام اور دیگر مذاہب کا تقابل کرسکتے ہیں، دنیا پر اسلام کے احسانات دکھا سکتے اور اسلامی تعلیمات سے دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ، یہ سب ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے سکالرز کی مرہون منت ہے ۔ جن کی تقاریر سے اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل ہوئی ۔اس وقت جہاں مسائل کے اندھیرے بے شمار ہیں وہیں امید افزا روشنیاں بھی ٹمٹما رہی ہیں اور یقیناًہمیں ان روشنیوں کی طرف جانا ہے اور ان کی روشنی بڑھانے کی کوشش کرنی ہے ۔ دنیا میں امن وسکون اسلام سے ہی ممکن ہے اور اس کے لئے اسلامی ممالک کو جلد سے جلد عالم اسلام کو متحد کرنے اور اپنے مسائل کو جلد سے جلد حل کرنے کی کوشش کرنی ہے گو اس میں مشکلات بھی بے شما رہیں لیکن ہم دین محمد ﷺ کے وارث ہیں اور اللہ ہی ہماراآسرا ہے۔تاکہ ہم دنیا کے سامنے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے بدمعاشوں کو نکیل ڈال سکیں ۔
08-07-2016

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: اسلام پسند ترکی اور باغی گروہ Rating: 5 Reviewed By: Unknown