Tuesday, October 4, 2016

پاناما لیکس اورسیاست دان

موزیک فانسیکا ٹیکس کی پناہ گاہ سمجھے جانے والے ممالک سوئٹرز لینڈ ، قبرص ، برطانوی جزیروں جیسے مقامات پر کام کرتی ہے۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی آف شورز سروسز فراہم کرنے والی فرم ہے جو تین لاکھ کمپنیوں کیساتھ جڑی ہے۔ سب سے مضبوط رابطہ برطانیہ ہے جہاں اس فرم کی نصف کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ یہ فرم پانامہ نام کے ایک ملک کی لا ء فرم ہے ۔پانامہ شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے درمیان ایک پٹی پر آباد ہے ۔ اس پٹی پر چھ چھوٹے چھوٹے ملک آباد ہیں ۔ساٹھ سے اسی کی دہائی میں دنیا میں 37ممالک میں فوجی انقلاب نے اپنی جڑیں مضبوط کیں ۔دنیا میں رشوت وکرپشن کا بازارگرم ہوا ،آمریت نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پنجے گاڑے۔پانامہ کا اگر نقشہ دیکھا جائے تو اس کے ساتھ کولمبیا کی سرحد ملتی ہے اور کولمبیا مافیا لارڈز ،منشیات اور جرائم کی جنت ہے ۔ٹیکس فری اور سرمایہ کاری جیسے خوش
نما دعوے اسمگلروں ،مافیاز،آمروں ،بادشاہوں ،اسلحہ فروشوں،سیاست دانوں اور بادشاہوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئے ۔افشاء ہونے والی دستاویزات کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے ۔ کمپنی کے بقول وہ 40سال سے قانونی طریقے کے اندر رہتے ہوئے کام کررہی ہے اور کبھی بھی کوئی غلط کام کا الزام نہیں لگا۔72حالیہ اور سابقہ سربراہان مملکت اورآمروں کا ان دستاویزات میں ذکر ہے ۔پاناما لیکس کے مطابق ٹیکس چوری کرنے والوں میں 500 بھارتی شامل ہیں۔ اس فہرست میں نواز شریف کے تین بچوں کا بھی ذکر ہے۔اس ڈیٹا میں ان خفیہ آف شور کمپنیوں کا ذکر ہے جن کے مصر کے سابق صدر حسنی مبارک، لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور شام کے صدر بشار الاسد کے خاندانوں اور ساتھیوں کے ساتھ روابط ہیں۔اس کے علاوہ اس میں ایک ارب ڈالر پر مشتمل کالا دھن سفید کرنے والے ایک گروہ کا بھی ذکر ہے جسے ایک روسی بینک چلاتا ہے اور جس کے روسی صدر ولادی میر پوتن کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ روابط ہیں۔ دولت کی ترسیل آف شور کمپنیوں کے ذریعے کی جاتی تھی، جن میں سے دو کے سرکاری طور پر مالک روسی صدر کے قریبی دوست تھے۔موسیقار سرگے رولدوگن لڑکپن سے روسی صدر کے ساتھی ہیں اور وہ پوتن کی بیٹی ماریا کے سرپرست (گاڈ فادر) بھی ہیں۔پاناما پیپرز میں چین کی کمیونسٹ جماعت کے اعلیٰ عہدیداروں بشمول صدر ڑی چنگ پن کے اہل خانہ کے نام بھی اس لیکس میں آئے ہیں جنھوں نے اپنی دولت چھپانے کے لیے آف شور کمپنیاں استعمال کیں۔ کمیونسٹ جماعت کی پولٹبیورو کے کم از کم آٹھ موجودہ یا سابقہ ممبران کا نام لیا گیا ہے۔ان آٹھ افراد میں سے ایک چین کے صدر کے بہنوئی ہیں جنھوں نے برٹش ورجن آئی لینڈز پر دو کمپنیاں بنائیں۔ایک امیر کلائنٹ امریکی ارب پتی اور لائف کوچ میریانہ اولزوسکی کو حکام سے پیسہ چھپانے کے لیے جعلی ملکیت پیش کی گئی تھی۔یہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس سے بچنے کو روکنے کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی قوانین کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ایک ای میل سے جو کہ موساک ایگزیکٹو کی جانب سے مس اولزوسکی کو جنوری 2009 میں بھیجی گئی تھی، معلوم ہوا ہے کہ وہ کیسے بنک کو دھوکہ دے سکتی ہیں۔’ہم ایک ایسے شخص کا استعمال کریں گے جو کہ اس اکاؤنٹ کے مالک کی طرح عمل کرے گا۔ اور اسی لیے اس کا نام بینک کو ظاہر کر دیا جائے گا۔ چونکہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اس لیے اس کی فیس بہت زیادہ ہوگی۔
پاکستان میں پاناما لیکس کو لے کر حزب اختلاف حکومت کو اچھاخاصا زچ کررہی ہے حالانکہ پاکستانی وزیراعظم کا اس میں نام نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹوں کا نام ہے اور ان کے علاوہ بھی 200پاکستانیوں کے نام ہیں لیکن سارا زور حکومت مخالف لابی لگا کر حکومت گرانے کے درپے نظر آرہی ہے ۔اس وقت پاکستان دہشت گردوں سے نبردآزماہے جہاں وہ فاٹا،وزیرستان ،بلوچستان اورکراچی میں آپریشن کرکے وہاں سے انڈین ایجنٹ اور خوراج کا نام ونشاں مٹا رہاہے وہیں اب پنجاب میں بھی ان کے سہولت کاروں اور پناہ گاہوں کے گرد گھیر ا تنگ کررہاہے ۔اس کے علاوہ بھی دیگر مسائل ہیں جن سے ہمیں نمٹنا ہے ۔ گومیں آف شور کمپنیوں کی مد ہوے والی انویسمنٹ کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن یہ سب قانونی ہیں ہم انہیں غیر اخلاقی کہہ سکتے ہیں لیکن غیر قانونی نہیں ۔ پاکستان کے سیاست دان ایسے کاموں سے لتھڑے پڑے ہیں ۔یہاں اس سے بھی بڑے اسکینڈل پڑے ہوئے ہیں جس میں سبھی سیاسی جماعتوں کے بندے ہوسکتے ہیں اور وہ ہیں بھی غیرقانونی لیکن جب تک مفادات وابستہ ہیں کوئی کچھ نہیں پوچھتا ۔ سیاست دانوں کو چاہیئے کہ اس متعلق تحقیقات کروائیں پھر کوئی فیصلہ کریں ۔ دھرنے اس کا کوئی حل ہیں اورنہ ہی ہٹ دھرمی ۔ممتاز آئینی و قانونی ماہر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر سید علی ظفر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آف شور کمپنیاں قانونی ہیں تاہم ان میں لگائے گئے سرمائے کا جائز ہونا ضروری ہے۔ان کمپنیوں میں بھی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقم سے سرمایہ کاری نہیں کی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کی دستاویزات وکلاء کے پاس ہوتی ہیں اور وکیل ہی تمام ڈاکو منٹیشن کرتے ہیں۔جو لوگ کسی وجہ سے اپنا نام چھپانا چاہتے ہیں وہ ایسی کمپنیاں خرید کر سرمایہ کاری کرتے ہیں یا پھر کالے دھن کے ذریعے یہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کالے دھن سے آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری کے بارے میں وہ ممالک بھی کارروائی کرسکتے ہیں جن کے جزائر میں یہ کمپنیاں قائم ہوتی ہیں۔سید علی ظفر نے مزید کہا کہ پاکستانی قانون کے مطابق ان پاکستانیوں سے باز پرس کی جاسکتی ہے جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لئے رقم کن ذرائع سے حاصل کی گئی ؟ یہ سوال ہر پاکستانی سے کیا جاسکتا ہے ،آف شور کمپنیوں کے مالک عوامی اور سرکاری عہدیدار ہوں توان سے قومی احتساب بیورو (نیب)بھی تفتیش کرسکتا ہے اور اگر یہ اثاثے چھپائے گئے ہوں یا پھر ناجائز ذرائع سے حاصل کئے گئے ہوں تو سرکاری اور عوامی عہدیداروں کو قید با مشقت کے علاوہ نااہلی کی سزا بھی دی جاسکتی ہے جبکہ ٹیکس چھپانے کے جرم میں 3سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔سید علی ظفر نے کہا کہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں لگانے کے لئے رقم کو جائز ذرائع سے باہر بھیجنا ضروری ہے ،اگر غیر قانونی طور پر سرمایہ باہر بھیجا جائے تو یہ کالا دھن ہوگا جس پر کارروائی ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری وہاں کے قانون کے مطابق درست ہے لیکن ان اثاثوں کا پاکستان میں ظاہر کیا جانا ضروری ہے۔

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: پاناما لیکس اورسیاست دان Rating: 5 Reviewed By: Unknown