Tuesday, October 4, 2016

ہندووں کی زبان پر آزادی کے نعرے

بھارت انسانیت کے نام پر ایک ایسا دھبہ بن چکاہے جس سے چھٹکارہ پانا بہت ضروری ہوچکا ہے ۔بھارت جہاں کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہاہے وہیں انتہا پسند ہندوبھارت میں مسلمانوں ،عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں سمیت دلت ہندوؤں کاجینا حرام کرچکے ہیں ۔18جولائی کو گجرات میں دلتوں نے بھارت میں اپنے ساتھ رکھے جانے والے شدید نفرت اورظلم وستم کی وجہ سے شدید ترین احتجاج کیا جس میں انہوں نے بھارت سے آزادی کا نعرے بھی لگائے ۔دلتوں کا احتجاج اس وقت شروع ہواجب ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا مقدمہ چل رہاتھا ،مقدمہ واپس نہ لینے پر لڑکی کودوبارہ اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنادیا گیا ۔پولیس نے مظاہرین پرآنسو گیس کے شیل پھینکے اورسینکڑوں دلتوں کو گرفتارکرلیا۔گجرات سے اٹھنے والی نفرت کی اس چنگاری اور حقوق نہ ملنے پر ممبئی میں دلت کمیونٹی نے بہت بڑا احتجاج کیا، جس میں دلت کمیونٹی کے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے اس موقع پر بھارتی سرکار کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور اپنی آزادی کا مطالبہ کیا۔بھارت میں ہندوؤں میں ذات پات کا نظام اس قدر شدید ہے کہ اونچی ذات کے ہندو نچلی ذات کے ہندو ؤں کو اپنی عبادت گاہوں میں نہیں داخل ہوتے دیتے۔جمہوریت کی دعویدار بھارت ریاست جہاں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جارحیت آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہے وہیں بھارتی شہریوں ماسوائے اونچی ذات کے ہندوؤں کے ہرکسی کے حقوق غصب کرنے کی راہ پر ہے ۔مدھیہ پردیش کے مندسورریلوے اسٹیشن پر ڈیموٹرین سے اترنے والی دومسلم خواتین کو جن میں سے ایک کے ہاتھ پر پہلے سے فریکچرتھا بھارتی انتہاپسند تنظیم
ہندووادی کے کارکنوں نے سرعام پولیس کی موجودگی میں لاٹھیوں ،ڈنڈوں اورچاقیوں سے مارا ۔ان دونوں مسلم خواتین پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگایا گیا اور بھارتی پولیس نے کمال کی پھرتی دکھاتے ہوئے الٹا انہیں خواتین پر مقدمہ درج کرلیا ۔
بھارت میں اس وقت 67مختلف علیحدگی پسند تحریکیں اپنی کوششوں میں مصروف عمل ہیں جن میں سے 17بڑی تحریکیں ہیں جن میں سب سے نمایا ں سکھوں کی تحریک خالصتان تحریک ہے ۔ ریاست تامل ناڈو، آسام، ناگالینڈ، تری پورہ، منی پور، شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام، پیپلز لبریشن آرمی، آل تری پور ٹائیگر فورس، دی اکھیل بھارت ایکتا سماج، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(نکسل) سمیت دیگر علیحدگی پسند تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔لوک سبھا میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب اور دیگر صوبوں کے علاوہ منی پور میں 34،ا?سام میں 11،ناگا لینڈ،میگالیا4،تری پور ،میزی رام میں 2 علیحدگی پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ کچھ مقامات پر یہ علیحدگی پسند تنظیمیں آئین میں رہتے ہوئے جدوجہد آزادی کررہی ہیں تو اکثر نے بھارتی پالیسیوں اور شدیدنفرت کاسامنا کرتے ہوئے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں ۔کوئی بڑی خبر یاکوئی ایساواقعہ جو کسی طرح مقامی یا غیرملکی میڈیا تک پہنچ جائے تو دنیا کو ہلکی سی خبر ہوجاتی ہے ورنہ بھارت کے ملیچھ،نیچ اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھارت کے ایسے علاقوں میں ظلم کی چکی میں پستے آرہے ہیں جہاں انتہا پسندہندوؤں کی اجارہ داری ہے ۔اگر ایسا کوئی واقعہ ہوجاتاہے جس سے بھارت کی سبکی ہوتو بھارت اس کا الزام پاکستان ،آئی ایس آئی اور کچھ نام جو اس کی زبان پررہتے ہیں ان پرلگادیتا ہے ۔عبیداللہ کے مطابق’’ہم اور ہماری قومیت‘‘ نامی کتاب میں آر ایس ایس کا رہنما ایم ایس گول والکرجو کے بعد 1940ء میں راشٹریہ سیوک سنگھ کا سربراہ بنا ،لکھتاہے’’’’ اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا آج تک ہندو قوم ان کے خلاف بہادری سے جنگ کر رہی ہے، قومیت کا احساس جاگ رہاہے، ہندوستان میں ہندو رہتے ہیں اور ہندو رہنے چاہیں،باقی سب غدار ہیں اور قومی مشن کے دشمن ہیں۔ اور سادہ لفظوں میں احمق ہیں۔ ہندوستان میں دوسری قومیں ہندوقوم کے ماتحت رہنی چاہیں۔ بغیر کوئی حق مانگے، بغیر کوئی مراعات مانگے، بغیر کوئی ترجیحی برتاؤ مانگے اوربغیرکسی شہری حقوق کے۔ اپنی قوم اور کلچر کے تشخص برقرار رکھنے کے لئے جرمنی نے یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے دنیا کو حیران کردیا، قومیت کا فخر وہاں پیدا کردیاگیاہے۔ ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا اچھا سبق ہے‘‘۔یہ سوچ ہے انتہاپسند ہندوؤ ں کی جن کے ہاتھ میں اس وقت بھارتی ایٹم بم موجود ہے جو کسی بھی وقت دنیا کو باور کرواسکتے ہیں کہ دنیا پر صرف ان کی حکومت چلے گی ۔تقسیم ہندوستان پر سکھوں نے دل وجان سے ہندوؤں کا ساتھ دیا ، ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور ان کے شانہ بشانہ سب کچھ کیا لیکن سکھوں کو دکھائے گئے سبز باغ اور وعدے جھوٹے ہی رہے جس کی تصدیق ماسٹر تارا سنگھ 28مارچ 1953ء وکو کہے گئے ان الفاظ سے ہوجاتی ہے ’’انگریزچلاگیالیکن ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں ، صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے سفید تھے اب کالے آگئے ہیں۔جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا کر ہمارے پنتھ، ہماری آزادی اور ہمارے مذہب کو کچلا جا رہا ہے۔‘‘تقسیم کے وقت ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داریاں سرانجام دینے والے کپور سنگھ کے مطابق صوبہ بھر کے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات دی گئیں کہ سرحد کے اُس پار سے آنے والوں سکھوں کو بالخصوص نقل مکانی کرکے یہاں آنے والوں کو’’مجرم قبیلہ‘‘سمجھا جائے اور ان کے ساتھ خصوصی سلوک کیاجائے ،جوہنوز جاری وساری ہے ۔آپریشن بلیو سٹارمیں 10ہزار سکھ زائرین کو ہلاک کیاگیا اس کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سکھوں کی نسل کشی کی گئی جس میں ایک اندازے کے مطابق 32ہزار کے قریب سکھ قتل کئے گئے ۔سینکڑوں سکھ خواتین کی عصمتیں لوٹیں گئیں ،ہزار سے زائد گردوارے نذرآتش کردئیے گئے ۔تین لاکھ سکھوں کو بے گھر کردیا گیا ۔ بھارتی حکومت سکھ مخالف فسادات کا نام دے کر ظلم وبربریت پرپردہ ڈالتی ہے۔بھارت کی ظلم وجبر کی ایک لمبی تاریخ ہے جو ہندوؤں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور انگریز کے ہندوستان میں آنے کے ساتھ ہی اس کی وفاداریاں ان کے ساتھ ہوجاتی ہیں ۔ یہ انہیں وفاداریوں اور اپنی مٹی سے غداری کا نتیجہ تھا کہ انگریز جاتاجا تاپنے کمیوں کو ہندوستان میں حکومت سونپ گیا ۔
دنیا میں اس وقت داعش ،تحریک طالبان پاکستان اور بوکوحرام جیسی تنظیموں کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے ۔ بلاشبہ یہ ایک اچھا قدم ہے بحثیت مسلمان ہم دنیا میں کسی بھی جگہ دہشت گردی کے واقع کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور مسلم دنیا کے کبار علما کرام اور سیاسی رہنمادنیا پر واضح کرچکے ہیں کہ ان تنظیموں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے منافی اقدامات کرنے والوں ،نہتے شہریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والوں اور زندہ انسانوں کو آگ میں جلانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخ انہیں خوارج کے نام سے جانتی ہے ۔لیکن کشمیر،فلسطین ،عراق ،شام اور دیگر ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کی طرف بھی دنیا کی نظریں اٹھنی چاہئیں۔کشمیر اوراندرون بھارت میں بھارتی انتہاپسند ہندوؤں نے مہا بھارت کے نام پر انسانیت کا جیناحرام کیا ہواہے تو فلسطینیوں کا یہودیوں نے ۔عراق،شام اور افغانستان میں عالمی طاقتیں اپنی مرضی کی حکومتیں لانے اور دولت لوٹنے کے چکروں میں مسلم امہ کے دلوں پر زہرآلود خنجر چلارہی ہیں ۔اقوام متحدہ سوئی ہوئی ہے جس کی آنکھ صرف اور صرف کسی غیر مسلم خصوصا لبرل ازم کے دلدادہ افراد پرہوئے طلم سے کھلتی ہے ۔ہندوؤں کی انتہاپسندی اوربھارت صرف ہندوؤں کا نعرہ لے کر اٹھنے والے ہندوؤں کی طرف عالمی طاقتوں کو توجہ دینی ہوگی ورنہ بھارت ایک ایسا دھکتا ہوا لاواہے جواگر پھٹا توپوری دنیا متاثر ہوگی۔
08-01-2016 

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: ہندووں کی زبان پر آزادی کے نعرے Rating: 5 Reviewed By: Unknown