Tuesday, October 4, 2016

ایک اور ضرب عضب

پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر تکفیری وخوارج گروہوں کے خلاف آپریشن کاآغاز کیاتو اس کا نام ضرب عضب رکھا ۔عضب نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ تلوار کا نام تھا ۔ دوسال قبل وزیرستا ن میں ہونے والے اس آپریشن میں دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی گئی ۔تحریک طالبان پاکستان سے امن مذاکرات کے دور بھی چلے لیکن وہ تو پاکستان دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے اس لئے امن مذاکرات کی آڑ میں وہ کسی نہ کسی صورت امن کو سبوتاژ کرتے رہے ۔پاک فوج کے عزم مصمم اور پیہم ارادوں نے پاکستان کو پھر سے امن کاگہوارہ بنا یا ۔پاک فوج کو دہشت گردوں کے ہاتھوں زخم بھی ملے لیکن ان زخموں نے پاک فوج کا جذبہ اور بڑھادیا ۔پاکستان میں اب پھر سے پھولوں کی مہک رچ رہی ہے ،خوفزدہ چہرے پھر سے کھلکھلا رہے ہیں اور عوام پاکستان اپنے آپ کو محفوظ محسوس کررہے ہیں ۔ یہ سب شہدا ء کی قربانیوں کا اللہ نے پاکستان کو ثمر فراہم کیا ہے ۔
ایک منٹ کے لئے ٹھہریے !یہ دہشت گردی کیا یکدم پاکستان میں آگئی ؟ کیا پاکستانی نوجوان یکدم ہی دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے اور کیا ایک دم سے ہی ملک پاکستان میں دھماکوں اور خون ریز واقعات کو فلما یاگیا ؟جہاں ہم پاک فوج کی قربانیوں اور شہادتوں کاذکر کرتے ہیں وہیں ہمیں ان سیاسی مداری جمورا پارٹیوں اور افراد کا بھی ذکر کرنا لازم ہے جنہوں نے یہ جرثومے پاکستانی دھرتی میں اتارے۔سیاست وجمہوریت کے لباس میں کرپشن،بے ایمانی اور ناانصافی کے جراثیم پاکستان میں اتارنے والے خود توخوش وخرم ہیں اور ان کی اولادیں
بڑے امن وسکون سے زندگی گذار رہی ہیں لیکن عوام الناس کا آج بھی طرز زندگی وہی ہے جو آج سے دس سال قبل تھا ۔ان سیاست دانوں کے ،بیوروکریٹس اور ان کے گماشتوں کے گھروں سے بلکہ پانی والی ٹینکیوں سے دولت کے انبار نکل رہے ہیں ۔جہاں ایک غریب اپنی بیٹی کی شادی کے لئے دن رات محنت کرکے اسے بنیادی ضروریات فراہم نہیں کرسکتا وہیں ان کے گھروں کے تہہ خانوں سے قارون کے خزانے نکل رہے ہیں ۔ایک طرف عوام کو کہاجاتا ہے کہ ٹیکس دیں دوسری طرف خود کو ٹیکس سے بچانے کے لئے سیاست دان آف شور کمپنیاں بناکر دولت کی ریل پیل کو بڑھارہے ہیں۔تین دہائیوں سے زائد ہوچکا کالاباغ ڈیم پر سیاست کی دوکان چمکاتے ہوئے ۔سیاست دان اس پرکوئی فیصلہ نہیں کررہے جبکہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے 5منٹ میں قراردادیں منظور ہوجاتی ہیں۔آف شور کمپنیوں کو لے کر جو بازار سیاست گرم ہے وہ صرف ڈھنگ ٹپاؤں پروگرام ہے ۔صاحب اقتدار اور حزب اختلاف صرف عوام کو الو بنارہے ہیں ۔ کالاباغ ڈیم پر سیاست کرنیو الے آباؤاجداد کی قبروں پر سیاست کررہے ہیں ۔وقت کا مورخ یہ سب دیکھ رہاہے جب وہ محب وطن افراد کا ذکر کرے گا تو وہیں میرجعفر جیسے لوگوں کا بھی لازمی ذکرکرے گا جنہوں نے منافقت کی ،جنہوں نے پاکستان کی زمین میں کرپشن ،چوربازاری اور ناانصافی کے بیج بوئے۔دہشت گردی میں جہاں دہشت گرد ملوث ہیں وہیں ان کے سہولت کار بھی اتنے ہی ملوث ہیں ۔ 
پاکستان کا نوجوان پڑھا لکھا طبقہ بیروزگاری کی دہشت گردی میں سڑ رہاہے اگر اسے نوکری ملتی بھی ہے تو رشوت کے ذریعے ۔ایم اے پاس ،گریجوایٹ اور اچھا خاصا پڑھا لکھا طبقہ چپڑاسی کی یا پھر درجہ چہارم کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ میں نے سولہ سال کس تعلیم کے لئے ضائع کردیئے لیکن سیاست دان تو ان سب چیزوں سے بے نیاز اپنی سیاست میں مگن ہیں ۔پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ جو صاحب حیثیت ہے وہ بیرون ممالک اپنی خدمات دینے پرمجبور ہوجاتاہے کیونکہ پاکستان میں ان کی ماہرانہ خدمات کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی جاتی ۔عام پاکستانی جب دولت کے انبار ان سیکرٹریوں اورسیاست دانوں کے گھرو ں سے نکلتے دیکھتاہے تو سوچتاہے کہ کیا پاکستان ان کی عیش کے لئے بنایاگیاتھا ؟پاکستان کی زمینیں بنجر ہورہی ہیں ،کبھی سیلاب پاکستانیوں کا جینا دوبھر کردیتاہے اورکبھی پانی کی قلت سے پاکستانی مرنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن بقول سیاسی رہنما ء موتیں ہوتی رہتی ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں؟پاکستان اس وقت بھارتی آبی جارحیت کاشکار ہوچکاہے لیکن آفرین ہے سیاست دانوں پر جوان کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو ۔جمہوریت کوبچانے کی خاطر اکٹھے ہونے والوں کی جمہوریت دوسرے جمہوری ملکوں سے مختلف ہے بلکہ یہ حقائق وکوائف سے اس قدر نابلد ہیں کہ گلی کے بچے کو پاکستان کے کچھ مسائل ازبر یاد ہیں جو اس کے دادا کے دور سے ہیں ۔ملک پاکستان ایک زرعی ملک تھا لیکن اب نہ زرعی ملک ہیں اور نہ صنعتی بلکہ ایک بنجر ملک بن چکاہے ۔سردیاں گیس کی کمی میں ٹھٹھر تے اورگرمی لوڈشیڈنگ میں پسینوں میں شرابور ہوکر گذر رہی ہیں ۔ہمارے آباؤاجداد بھی ادھر ہی تھے اور ہم نے بھی ادھر ہی رہنا ہے یہی ہمارا ملک ہے لیکن سیاست دان جو ہم پر حکمرانی کرتے ہیں ان کے بیرون ممالک کاروبار ہیں ان کی اولادیں یورپین ممالک میں رہتی ہیں لیکن مسلط ہم پر ہوتے ہیں اور سیاسی بازار میں پاکستان سے محبت کا نعرہ لگاتے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ یہ پاکستانی کم اور غیرملکی زیادہ ہیں ۔ان کے پاکستانی مفاد اپنی حکمرانی تک ہی ہیں۔ہمیں ضرورت ہے ایک ایسے ضرب عضب کی جس میں سیاسی پارٹیوں،بیوروکریٹس ،سرکاری افسران ودیگر کی صفائی کی جائے اور ان کی پاکستان سے محبت کو ذرا چیک کیا جائے اور ان کے تہہ خانوں اورپانی کی ٹینکیوں کوصاف کرکے کرپشن کے خلاف ایک آپریشن کیا جائے تاکہ جمہوریت کی آڑ میں کہیں پاکستان کوخطرہ لاحق نہ ہوجائے ۔

  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: ایک اور ضرب عضب Rating: 5 Reviewed By: Unknown