Sunday, October 30, 2016

شکریہ خادم حرمین شریفین


سعودی عرب میں شہزادہ ترکی بن سعود کو جب عادل الحمید کے قتل کی قصاص میں قتل کیا گیا تو جہاں دنیا میں عدل وانصاف کی ایک اعلیٰ مثال قائم ہوئی وہیں اسلام کی حقانیت دنیا پر واضح ہوئی کہ ملزم کوئی بھی ہواسلام کی نظر میں سب برابرہیں۔پاکستان کے معاشرے میں جہاں سیاست دانوں ،بیوروکریٹس ،وڈیروں اوراشرافیہ کی کی اولاد قانون کو جیب میں لئے پھرتی ہو وہاں اس طرح کے فیصلے پر حیرت وخوشی کے ملے جلے ردعمل کاکیا جانا ایک فطرتی عمل تھا۔انصاف کا بول بالا ہونے سے معاشرے میں امن وسکون قائم رہتا ہے ۔ظلم کی حکومت کا چلنا ناممکنات میں سے ہے۔ہرشہری کی جان ومال اور عزت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔مسلم معاشروں کو برائیوں سے پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مجرم کو اسلامی شریعۃ کے مطابق سزا دی جائے ۔2013ء میں ایک دوست سے جب اس مسئلے کے حوالے سے گفتگو کی تو اس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی کے ملازم پرہاتھ ڈالنے والے کو معطل کردیاجاتا ہے ،ترکی بن سعود تو پھر آل
سعود کا چشم وچراغ ہے۔خادم حرمین شریفین نے انصاف سے کام لیتے ہوئے میرے دوست جیسے کئی احباب کا ذہن صاف کردیا ہے ۔شہزادہ ترکی نے تین سال قبل عادل المحمیدسعودی نوجوان کو قتل کیا تھا جس کے بعد سعودی پولیس نے شہزادے کو گرفتار کرلیا ۔ جرم ثابت ہونے پر سعودی سپریم کورٹ نے شہزادے کو موت کی سزا سنائی جس کے بعد شہزادے کے اقربانے مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی کوشش کی۔لیکن مقتول کے لواحقین نے کسی قسم کی دیت لینے سے انکار کردیا۔شہزادہ ترکی بن سعود کے اہل خانہ نے شہزادہ محمد بن نائف سے رجوع کیا تو انہوں نے سفارش سے انکار کردیا اور کہا کہ قوانین شریعت کا یکساں اطلاق ہوگا ، کوئی شاہ ہویاپھر شہزادہ !جرم پر معافی نہیں مل سکتی۔جس پرمنگل ’’18اکتوبر ‘‘کو شاہ سلمان کے حکم پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شہزادہ ترکی کو سزائے موت دے دی گئی۔
اسلام کی نظر میں امیر وغریب ،سفیدوکالا ،بادشاہ اوررعایا سب برابر ہیں ۔قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ایمان کو عدل وانصاف قائم کرنے اور حق و سچائی کے مطابق گواہی دینے کے متعلق یوں حکم فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ۔اللہ (کی رضا) کے لیے (حق و سچ کے ساتھ) گواہی دو چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتے داروں کا، جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر، بہر حال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے، تو خواہش (نفس) کے پیچھے نہ پڑو کہ حق (عدل) سے الگ پڑو اور اگر تم (گواہی میں) ہیر پھیر کرو یا منہ موڑو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔‘‘ (النساء : 135)خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اکرمﷺ نے مساوات کا درس دیتے ہوئے فرمایا ’’ اے لوگو! تم سب کا پروردگار ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک (حضرت آدم علیہ السلام) ہے، کسی عربی کو عجمی پر او ر کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اورنہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو کسی گورے پر فضیلت حاصل ہے، سوائے تقویٰ اور پرہیز گاری کے۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)اسلام کے انہیں زریں اصولوں پر جب تک حکمران قائم رہے دنیا میں اسلام کے نام لیواؤں کارعب ودبدبہ رہااورپھر جیسے ہی ہم نے اس سے پیچھے ہٹنا شروع کیا ہما ری ذلتوں کے کنوؤں میں گرنے لگے ۔ایک مرتبہ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی۔ یہ خاندان چوں کہ قریش میں عزت اور وجاہت کا حامل تھا، اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے اور معاملہ کسی طرح ختم ہوجائے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ جو رسول اکرمﷺ کے منظور نظر تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ اس معاملے میں رسول اکرمﷺ سے معافی کی سفارش کیجیے۔ انہوں نے حضور اکرمﷺ سے معافی کی درخواست کی۔ آپﷺ نے ناراض ہو کر فرمایا: ’’ بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے) قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر (بالفرض) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔ (صحیح بخاری)یہی تعلیمات تھیں جنہوں نے تھوڑے سے وقت میں پوری دنیا کو اسلام سے روشناس کروایا ۔ہندوستان میں محمد بن قاسمؒ کی جو عزت افزائی ہوئی تھی اس کی وجہ اُن کی شکل وصورت یافاتح ہونا نہیں تھا بلکہ ان کا عدل وانصاف پر کاربند رہنا ہی تھا ۔ جس نے ہندوؤں کو ان کا گرویدہ کردیا تھا۔شاہ سلمان نے بھی انہیں خطوط پر چلتے ہوئے شہزادے کو قصاص میں سزا دی ہے ۔
وقت کے بادشاہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد پر عوام میں سے ایک بندے کے قتل کا الزام ثابت ہونے پر قصاص کی سزالاگوہوتی ہے تو شاہی خاندان کے افراد مقتول کے لواحقین کو دیت کی رقم دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مقتول کا والد دیت سے انکار کردیتا ہے ۔ماضی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جب کسی شہزادے سے کوئی قتل ہوجاتا تو دیت دے کر مقتول کے لواحقین کو راضی کرلیاجاتا لیکن اس بار مقتول کے لواحقین نے دیت لینے سے انکار کردیا ۔پاکستانی معاشرے میں دیت سے انکار کے بعد ایک مبینہ طریقہ استعمال ہوتا ہے جس میں کچھ لوگ ملوث ہوکر دباؤڈال کر دیت کی رقم پر مقتول کے لواحقین کو راضی کرتے ہیں یاپھر ڈرادھمکا کر عدالت سے اپنا کیس واپس لینے پر مقتول کے لواحقین کو راضی کیا جاتا ہے ۔پاکستان میں شاہ زیب قتل جیسے کئی واقعات موجود ہیں جن میں لواحقین پر دباؤڈال کر کیس کی پیروی سے روکا گیا اور ملزم باعزت بری ہوئے ۔پاکستان میں جہاں اس معاملے پر سعودی حکومت و عدالتی نظام کی تعریف کی جارہی ہیں وہیں پاکستانی قلم کار بھی اس معاملے کو اسلامی نقطہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور ایک طرح سے پاکستان میں دبی دبی زبان میں اسلامی شرعی نظام کو نافذ کرنے کا اظہار کررہے ہیں ۔پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور اس کا قیام کا مقصد اسلامی نظام کے تحت زندگی گذارنے کی آزادی تھا لیکن ہنوز یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا ۔ہم مسلمان ہوکر بھی پاکستان میں اسلامی نظام لانے میں یکسر ناکام ہوچکے ہیں ۔ہماری شہادتیں ،قربانیاں اور ہندوستان سے علیحدہ ہونے کا خواب ابھی مکمل شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ۔
پاکستانی کالم نگاریحییٰ مجاہدنے جہاں اپنے کالم ’’خادم الحرمین الشریفین ۔۔۔۔انصاف کی اعلیٰ مثال‘‘میں جہاں سعودی حکومت کی اسلام سے محبت کو واضح کیا وہیں دوسر ے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو بھی ترغیب دی ہے کہ اپنے ملکوں میں اسلامی شریعہ نافذ کریں ۔علامہ ابتسام الہٰی ظہیر اپنے کالم میں بنو مخزوم کی فاطمہ نامی عورت کا واقعہ لکھنے کے بعد لکھتے ہیں ’’نبی کریم ﷺ کی اس عدالت کی وجہ سے جزیرۃ العرب کے جرائم سے بھرے ہوئے معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں مجرم کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ مجرم خود ہی اپنے آپ کو احتساب کے لیے قانون کے حوالے کر دیتا تھا۔‘‘اسی طرح معروف مصنف وصحافی ترکی الدخیل نے ’’انصاف پرور سلمان کا شکریہ ‘‘ کے عنوان سے کالم میں لکھا کہ ’’قتل ایک ناپسندیدہ عمل ہے ۔کوئی اپنے طور پر پہل کرکے کسی کا سراڑا دے یاجوابی عمل کے طور پر کسی کا سراتاراجائے ۔البتہ انصاف کا بول بالا ہونا خوبی کی بات ہے ۔‘‘معروف صحافی فہد عبداللہ العجلان نے الجزیرہ اخبار میں لکھا کہ ’’انصاف ،برابری سعودی ریاست کا محور تھے ،ہیں اور رہیں گے ۔‘‘عکاظ اخبار میں شائع ہوئے کالم میں عبدہ خال لکھتے ہیں ’’جان کے بدلے جان کے اسلامی قانون کا شہزادے پر نفاذتمام عوام کو یہ پیغام د ے گیا ہے کہ سعودی عدالت اور حکومت کی نظر میں سب برابر ہیں ۔‘‘اس سزا کے عمل درآمد ہونے سے سعودی عرب کی حکومت کی اسلامی تعلیمات سے گہری دل چسپی واضح ہوتی ہے شاہ سلمان وقت کے حاکم ہیں اور اگر وہ چاہتے تو دوسر ے ذرائع سے بھی مقتول کے لواحقین کو راضی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اسلامی حدودوقیود میں رہتے ہوئے دیت دینے کی کوشش میں ناکامی کے بعد قصاص میں قتل کی سزاپرعمل کرک دکھایا ۔سعودی عرب کی حکومت کے حالیہ قدم سے اسلامی ممالک میں اس کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں جرائم کی سطح ہمارے مقابلے میں بہت کم ہے ۔پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اپنی جلاوطنی کا ایک لمبا عرصہ سعودی عرب میں گذار کر آئے ہیں ۔شاہ زیب وریمنڈ ڈیوس جیسی کئی مثالیں ہمارے گلی محلوں میں عام ہیں جن میں مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں مل سکی اور لواحقین کو ڈرادھمکا کر دیت پر راضی کیا گیا تھا ۔ اسلامی ممالک میں انصاف دربدر کیوں ذلیل ہورہا ہے ۔کیوں نوجوان بیٹا قتل ہوتا ہے تو ماں کو عدالت میں بیان دیناپڑتا ہے کہ میری بیٹیاں جوان ہیں، میں کیس نہیں لڑسکتی ۔کیوں انصاف کے لئے لوگوں کو اپنے اوپر تیل چھڑک کر آگ لگانا پڑتی ہے اور کیوں ظلم سہہ کربھی کوئی عدالت کا روازہ کھٹکھٹانے سے انکارکردیتا ہے ۔سعودی فرماں رواں نے انصاف کا بول بالا کردیا ہے اب ذرا دوسرے ممالک کے حکمران ہمت کریں اور اس متعلق زبان وکلام سے آگے بڑھ کر انصاف کی داغ بیل ڈالیں ۔
  • Blogger Comments
  • Facebook Comments

0 comments:

Post a Comment

Item Reviewed: شکریہ خادم حرمین شریفین Rating: 5 Reviewed By: Unknown